کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 196
مشورہ لیا تو سارے مسلمانوں کو بھی مشورہ اور اظہار رضامندی کا حق ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا تھا کہ آپ اس خلافت کے لیے مجھ سے زیادہ قوی ہیں لیکن آپ مجھ پر غالب آگئے۔ [1]
بلاشبہ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی مملکت کا نظام شورائیت پر قائم تھا، یہ واقعہ ہمارے سامنے واضح دلیل ہے کہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر چھوٹی بڑی چیز سے متعلق کس طرح مسلمانوں سے مشورہ لینے کے حریص تھے اور اپنے بھائیوں کے مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہ کرتے تھے۔ [2]
جمع قرآن کے اس واقعہ سے چند نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں :
۱: مرتدین کے خلاف جنگ میں بہت سے حفاظ قرآن کی شہادت کو دیکھتے ہوئے قرآن ضائع ہوجانے کے خطرے اور اندیشے کے نتیجہ میں قرآن کریم کو یکجا کیا گیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت حفاظ و علماء، اسلام اور مسلمانوں کی قوت، اپنے افکار وکردار اور تلوار کے ذریعہ سے بلند کرنے کے لیے عملی اور مجاہدانہ قدم اٹھانے میں جلدی کرتے تھے۔ اس طرح وہ امت مسلمہ کے چیدہ افراد میں سے تھے جو لوگوں کی اصلاح کے لیے پیدا کیے گئے تھے، بعد میں آنے والے ہر فرد کے لیے ان کی پیروی لائق تحسین ہے۔
۲: مصلحت مرسلہ [3] کے پیش نظر قرآن کو یکجا کیا گیا، اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہ کی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفت وشنید کو میں دلیل نہیں بناتا جب کہ ابوبکر نے عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ہم کیسے وہ کام کریں جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم، یہ عمل بہتر ہے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم یہ عمل بہت بہتر ہے اور اس میں مسلمانوں کی مصلحت ہے اور بالکل یہی جواب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت کو بھی اس وقت دیا جب انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا سوال ان سے کیا تھا۔ بہرحال جس روایت میں ’’مصلحت‘‘ کا لفظ آیا ہے وہ صحیح ہو یا نہ ہو تاہم سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی تعبیر میں ’’خیر‘‘ کا لفظ استعمال کرنا مصلحت ہی کا معنی دیتا ہے۔ اور جمع قرآن میں مسلمانوں کے لیے مصلحت ہے۔ چنانچہ شروع شروع میں مصلحت مرسلہ کے تحت قرآن جمع کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا، جبکہ تمام لوگوں نے صراحتاً یا ضمناً اس کی تائید کی۔ یہاں یہ واقعہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جو لوگ مصلحت مرسلہ کے قائل ہیں ان کے نزدیک (یہ اُصول)اجماع کے لیے دلیل بن سکتا ہے۔ جیسے کہ اصول فقہ میں یہ چیز ثابت ہے۔
[1] محض الصواب فی فضائل أمیر المومنین عمر بن الخطاب: ۱/ ۲۶۲
[2] استخلاف أبی بکر الصدیق، جمال عبدالہادی، ص: ۱۶۶۔ ۱۶۷
[3] ایسا وصف کہ جس پر شارع نے نہ اعتبار کی مہر ثبت کی ہو اور نہ الغاء وتردید کی ہو، بلکہ وہ مصلحت ومنفعت کے تئیں بے قید ہو۔ (مذکرۃ أصول الفقہ/ الشنقیطی)