کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 194
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی، جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا میں اس سے ضرور بالضرور جنگ لڑوں گا، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹنی کا ایک سال سے چھوٹا سا بچہ مجھے نہ دیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیتے تھے تو اس کی عدم ادائیگی پر ان سے جنگ لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا سینہ جنگ کے لیے کھول دیا ہے تو میں نے یقین کرلیا کہ آپ کی رائے برحق ہے۔ [1] قرآنِ کریم کو جمع کرنا: جنگ یمامہ میں مسلمان شہداء میں ان شہیدوں کی تعداد زیادہ تھی جو قرآن کے حافظ تھے، اس کے نتیجے میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا اور اسے چمڑے کے ٹکڑوں ، ہڈیوں ، کھجور کی شاخوں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر یکجا کیا گیا۔ [2] مسلمان مقتولین کی دیّت کی عدم قبولیت کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن کو مخصوص زمین دینے پر آپ کا اعتراض : ۱: مرتدین کے خلاف جنگ میں مسلمان مقتولین کي دیّت کي عدم قبولیت پر آپ کي رائے:… اسد اور غطفان کی طرف سے بزاخہ کی قیادت میں ایک وفد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور صلح کا مطالبہ کرنے لگا، آپ نے ان کو تباہ کن جنگ اور رسوائی پر مبنی صلح کی ادائیگی کے درمیان اختیار دیا۔ انہوں نے کہا: تباہ کن جنگ تو دیکھ لی لیکن رسوائی پر مبنی صلح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم سے تمہارے مویشیوں اور کھیتیوں کو چھین لیا جائے گا اور تمہارا جو مال ہم کو ملے گا اسے ہم مال غنیمت سمجھیں گے اور تم ہمارا جو مال پاؤ گے اسے واپس کردو گے، ہمارے مقتولین کی تم دیّت دو گے اور تمہارے مقتولین جہنم رسید ہوں گے اور تم ان لوگوں کا پیچھا چھوڑ دو گے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے چلتے ہیں ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ، خلیفہ رسول اور مہاجرین کوئی ایسی چیز دیکھ لیں کہ تم کو معذور سمجھنے لگیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وفد کے سامنے جو بات کہی تھی اسے جب عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا تو وہ کھڑے ہوگئے اور کہا: آپ نے جو بات کہی ٹھیک ہے لیکن ہم بھی آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ نے تباہ کن جنگ اور رسوا کن صلح کی جو بات کہی وہ بہت اچھی بات کہی اور یہ کہ جو تمہارا مال ہمیں ملے گا اسے ہم مالِ غنیمت سمجھیں گے اور ہمارا جو مال تم کو ملے گا سو اس کے بارے میں بھی آپ نے بہت اچھا کہا لیکن آپ نے ہمارے مقتولین کی دیّت لینے اور ان کے مقتولین کے جہنم رسید ہونے کی جو بات کہی ہے تو اس سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ
[1] صحیح البخاری ، استنابۃ المرتدین والمعاندین وقتالہم: ۶۹۲۵۔ [2] حروب الردۃ وبناء الدولۃ الإسلامیۃ، أحمد سعید، ص: ۱۴۵