کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 193
(۳) سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی میں سقیفہ بنی ساعدہ میں آپ کا مؤقف اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصار سقیفۂ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور کہا: ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ پھر ان کے پاس ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے بولنا شروع کیا لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو خاموش کردیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: اللہ کی قسم میں نے اس موقع پر کچھ ایسی باتیں کہنا چاہتا تھا جو مجھے بہت پسند تھیں اور مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کو نہ جانتے ہوں ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تقریر کی اور خوب فصیح وبلیغ تقریر کی، تقریر میں کہا: ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر ہوگے۔ خباب بن منذر نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ایسا ہرگز نہ ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم میں سے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ، لیکن ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر ہو گے۔ وہ (مہاجرین) عرب کے بہترین گھرانے کے لوگ ہیں ، حسب ونسب میں اعلیٰ درجہ کے عربی ہیں ، تم عمر یا ابوعبیدہ سے بیعت کرلو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بلکہ ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ آپ ہم سے بہتر، ہمارے بڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب رہے ہیں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ (ابوبکر) کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کی اور دوسرے لوگوں نے بھی آپ سے بیعت کی۔ [1] مانعینِ زکوٰۃ سے جہاد اور لشکر اسامہ کی روانگی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ کی گفت وشنید: سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عربوں میں سے کچھ مرتد ہوگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے، جب کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، فَمَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہٗ وَنَفْسَہٗ إِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ۔)) [2] ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ ’’لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کا اقرار کرلیں یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جس نے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کرلیا، اس نے مجھ سے اپنے جان ومال کو محفوظ کرلیا، مگر اس کلمہ کے حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
[1] مسند أحمد: ۱/۲۱۳، علامہ احمد شاکر نے اس کی سند کی تصحیح کی ہے۔ [2] صحیح البخاری، استتابۃالمرتدین والمعاندین، حدیث نمبر:۶۹۲۴۔