کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 191
اس کے بعد آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا، آپ اس وقت آئے جب کہ عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ نماز پڑھا چکے تھے، پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ عبداللہ بن زمعہ کا بیان ہے کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تیرا بُرا ہو! اے ابن زمعہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ اللہ کی قسم جب تم نے مجھے (امامت کا) حکم دیا تھا تو میں نے یہی گمان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کام کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لوگوں کو نماز نہ پڑھاتا۔ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے، میں نے کہا: اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن جب میں نے ابوبکر کو نہیں دیکھا تو حاضرین میں آپ ہی کو امامت کا زیادہ حق دار سمجھا۔ [1] اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (مرض الموت میں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھی تو آپ نے فرمایا: (( اِئْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ۔)) ’’مجھے سامان کتابت دو، میں تمہارے لیے (ایک تحریر)لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول سخت تکلیف سے دوچار ہیں ، ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے جو ہمیں کافی ہے! پھر وہ سب اختلاف کربیٹھے اور بہت شور شرابہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قُوْمُوْا عَنِّیْ وَلَا یَنْبَغِیْ عِنْدِیْ التَّنَازُعُ۔)) ’’میرے پاس سے چلے جاؤ، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل گئے: سب سے بڑی مصیبت یہ ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے اور لکھنے کے درمیان حائل ہوئی۔ [2] ۲۔ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دن آپ کا موقف: جب لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو بڑا واویلا مچ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مسلمانوں کے لیے اور خاص طور پر ابن خطاب کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس صورت حال کی تفصیل ہمیں اس طرح بتاتے ہیں : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: کچھ منافق لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، حالانکہ آپ مرے نہیں ہیں ، وہ تو اپنے ربّ کے پاس گئے ہیں جیسے کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام گئے تھے۔ وہ اپنی قوم کی نگاہوں سے چالیس (۴۰) رات تک غائب تھے اور پھر واپس لوٹے جب کہ کہا جانے لگا تھا کہ وہ مرگئے۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول بھی اسی طرح واپس
[1] سنن أبی داؤد، حدیث نمبر: ۴۶۶۰۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ [2] صحیح البخاری، العلم، حدیث نمبر: ۱۱۴