کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 189
اونٹوں کو بھی پلایا۔‘‘
اس حدیث میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (( فَجَائَ عُمَرُ فَاسْتَسْقٰی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا))یعنی ’’عمر بن خطاب آئے انہوں نے پانی کھینچنا شروع کیا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا‘‘ سے آپ کی فضیلت بالکل واضح ہے۔ حدیث میں وارد لفظ ’’اِسْتَحَالَتْ‘‘ کا معنی ہے کہ وہ ڈول چھوٹا تھا لیکن اس وقت بڑا ہوگیا، اور ’’عَبْقَرِیٌ‘‘ کا معنی سردار، یا وہ شخص جو اپنی خصوصیات میں منفرد ہو۔ اور ’’ضَرَبُوا الْعَطَنَ‘ کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے اونٹوں کو پانی پلایا، پھر ان کے آرام کرنے کی جگہ میں لے گئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب میں ان تمام (حوادث وواقعات) کی مثال موجود ہے جو خلافت صدیقی وخلافت فاروقی میں واقع ہوئے۔ نیز ان دونوں کی سیرت کی خوبیاں ، نقوش اور لوگوں کی نفع رسانی کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت صدیقی میں مرتدین سے قتال ہوا اور آپ نے ان کی ہوا اکھاڑ دی، اسلام کی شعائیں منور ہوئیں حالانکہ آپ کی مدت خلافت مختصر رہی۔ یعنی دو سال اور کچھ مہینے۔ لیکن اللہ نے اس مختصر سی مدت میں برکت عطا فرمائی اور اسلام کو بہت فائدہ ہوا۔
۵: عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت اور جنت میں محل کے لیے آپ کو بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((رَأَیْتُنِیْ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَإِذَا أَنَا بِالرُّمَیْصَائِ۔ امْرَأَۃِ أَبِیْ طَلْحَۃَ۔ وَسَمِعْتُ خَشْفَۃً فَقُلْتُ: مَنْ ہٰذَا؟ فَقَالَ: ہٰذَا بِلَالٌ۔ وَرَأَیْتُ قَصْرًا بِفِنَائِہٖ جَارِیَۃٌ فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا؟ فَقَالَ: لِعُمَرَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَہُ فَأَنْظُرَ إِلَیْہِ، فَذَکَرْتُ غَیْرَتَکَ۔)) [1]
’’میں نے دیکھا کہ جنت میں داخل ہوا، اچانک میرے سامنے رمیصاء ابوطلحہ کی بیوی نظر آئی اور میں نے ایک آواز سنی تو پوچھا: یہ کون ہے؟ اس (فرشتے) نے کہا: یہ بلال ہیں ۔ وہاں میں نے ایک محل دیکھا جس کے آنگن میں ایک عورت تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کس کا ہے؟ اس (فرشتے )نے کہا: یہ عمر کا ہے۔ میں اس میں داخل ہونا چاہتا تھا تاکہ اسے دیکھ لوں ، لیکن (اے عمر) تیری غیرت مجھے یاد آگئی۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا؟
۶: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکر صدیق کے بعد عمرؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں :
سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مردوں میں سے؟ آپ نے
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۶۷۹، ۶۶۲۰۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۹۴