کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 182
۱۳۔ تمہارے پاس جو مال آئے اسے قبول کرلو بشرطیکہ تم نے اسے مانگا نہ ہو اور نہ اس کی لالچ کی ہو:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطیات سے نوازتے اور میں آپ سے کہتا: آپ اسے اس شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے کہا: جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو اسے دے دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( خُذُہُ وَمَا جَائَ کَ مِنْ ہٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْہُ ، وَمَ لَا فَـلَا تُتْبِعْہُ نَفْسَکَ۔))[1]
’’اسے لے لو اور اس طرح کا جو مال تمہیں ملے اسے لے لو بشرطیکہ تم نے اس کا لالچ نہ کیا ہو اور اسے مانگا نہ ہو۔ اور جو ایسا نہ ہو اس کے پیچھے جان مت کھپاؤ۔‘‘
۱۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمانا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ایک سفید کپڑا دیکھا … اور ایک روایت میں ہے کہ قمیص دیکھی … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ کپڑا نیا ہے یا دھلا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: دھلا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِلْبَسْ جَدِیْدًا وَعِشْ حَمِیْدًا وَمُتْ شَہِیْدًا۔)) [2]
’’نیا کپڑا پہنو، اور قابل تعریف زندگی گذارو، اور شہادت کی موت مرو۔‘‘
۱۵۔ میں اس وقت کو جانتا ہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے گئے تاکہ اس میں برکت کی دعا کریں :
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد فوت ہو گئے اور ایک یہودی کا تیس (۳۰) وسق کھجور ان پر قرض باقی تھا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے یہودی سے مہلت مانگی، لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کردیا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے یہودی سے سفارش کردیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ قرض کے عوض وہ ان کی کھجور کے پھلوں کو لے لے، لیکن اس نے انکار کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے باغ میں داخل ہوئے اور اس میں گھومے، پھر جابر سے فرمایا:
(( جُدَّ لَہٗ ، فَأَوْفِ لَہٗ الَّذِیْ لَہُ۔))
’’اس کا حصہ لگاؤ اور اس کا پورا (قرض) اسے دے دو۔‘‘
[1] صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث نمبر: ۱۰۴۵
[2] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ۔ حسن: ۳۵۲۔ صحیح الجامع الصغیر، حدیث نمبر: ۱۲۳۴