کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 180
ابن عمر رضی اللہ عنہما کو تحفہ نبوی پیش کیے جانے کی تفصیل یہ ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، میں عمر رضی اللہ عنہ کے ایک جوان اور اڑیل اونٹ پر سوار تھا، وہ میرے اشارے کو نہ مانتا اور قوم سے آگے بڑھ جاتا، عمر رضی اللہ عنہ اسے ڈانٹتے اور پیچھے کردیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے فرمایا: ’’بعنیہ‘‘ اسے مجھے فروخت کردو۔ آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مجھے فروخت کردو۔ چنانچہ آپؓ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبداللہ بن عمر! یہ تمہارے لیے ہے جس طرح چاہو اسے استعمال کرو۔ [1] ۱۱۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمت افزائی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بشارت: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً لَا یَسْقُطُ وَرَقُہَا وَہِیَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُوْنِیْ مَا ہِیَّ؟۔)) ’’درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے کبھی نہیں جھڑتے، اور یہی مسلمان کی مثال ہے۔ بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟‘‘ لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن میں شرم سے نہ بولا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس درخت کے بارے میں ہمیں بتا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجور کا درخت ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے اپنا خیال اپنے والد کو بتایا تو انہوں نے کہا: تمہارا اسے بتا دینا میرے نزدیک اس بات سے کہیں زیادہ بہتر تھا کہ میرے پاس ایسا ایسا (قیمتی سرمایہ) ہوتا۔‘‘ [2] عمر رضی اللہ عنہ کا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دینے کا واقعہ یوں ہے: عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں رات دیر تک گفتگو کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، ہم نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اس کی قراء ت سننے لگے۔ قریب تھا کہ ہم اسے پہچان لیتے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَقْرَأ الْقُرْآنَ رَطْبًاکَمَاأُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْہُ عَلٰی قِرَائَ ۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔)) ’’جو قرآن کو تروتازہ پڑھنا چاہے جس طرح کہ اس کا نزول ہوا، تو وہ اسے ابن ام عبد کی قرائت پر پڑھے۔‘‘
[1] صحیح البخاری، البیوع، حدیث نمبر: ۲۱۱۵۔ [2] صحیح البخاری، العلم، حدیث نمبر: ۱۳۱