کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 177
(( إِنَّ اللّٰہَ یَنْہَاکُمْ أَنْ تَحْلِقُوْا بَآبَائِ کُمْ۔)) ’’اللہ تعالیٰ تم کو منع کرتا ہے کہ تم اپنے آبا واجداد کی قسم کھاؤ۔‘‘ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم! جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے سنا اس کے بعد سے ایسی قسم نہیں کھائی، حتیٰ کہ قصداً یا بھول کر بھی اس پر زبان نہ کھولی۔ [1] اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (( لَوْ أَنَّکُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکَّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحَ بَطَانًا۔)) [2] ’’اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو جس طرح اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اسی طرح روزی دے جس طرح پرندوں کو دیتا ہے، وہ خالی پیٹ صبح کو نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس ہوتے ہیں ۔‘‘ ۶۔ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ورسول مان کر میں راضی ہوں : ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جسے آپ نے ناپسند کیا، جب اس پر اصرار کیا گیا تو آپ غصے ہوگئے اور لوگوں سے فرمایا: سَلُوْنِیْ عَمَّا شِئْتُمْ، ’’تم مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو‘‘ ایک آدمی نے کہا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: حذافہ۔ دوسرا کھڑا ہوا، اس نے پوچھا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ شیبہ کے غلام سالم ہیں ۔ [3] جب عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرے پر غصہ کی علامت دیکھی تو کہا: اے اللہ کے رسول ہم اللہ سے توبہ کرتے ہیں ۔ [4] ایک روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ دو زانو بیٹھ گئے اور کہا: ہم اللہ کو ربّ مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر خوش ہیں ۔ پھر آپ خاموش ہوگئے۔ [5] ۷۔ نہیں میرے لیے خاص نہیں ، نہ تیرے لیے باعث مسرت ہے اور نہ دوسروں ہی کے لیے، بلکہ یہ سب کے لیے ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے پاس ایک عورت کچھ خریدنے آئی، میں اسے اپنے خاص کمرے میں لے گیا اور جماع کے علاوہ سب کچھ کیا۔ آپ نے فرمایا: تیری بربادی ہو شاید اس کا خاوند جہاد پر گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر کے پاس جا کر
[1] اس کی سند صحیح ہے اور بخاری کی شرط پر ہے۔ مسند أحمد حدیث نمبر: ۱۲۲۔ الموسوعۃ الحدیثیۃ ۔ [2] مسند أحمد، حدیث نمبر:۲۰۵ الموسوۃ الحدیثیۃ۔ اس کی سند قوی ہے۔ [3] سعد بن سالم، شیبہ بن ربیعہ کے غلام ہیں اور صحابی ہیں ۔ محض الصواب: ۲/ ۷۰۰ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۹۲۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۶۰ [5] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۹۳۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۵۹