کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 174
’’یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، جنت اور جہنم پر اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر اور پوری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘
اس نے کہا: احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔))
’’تم اللہ کے لیے عمل (صالح) اس تصور سے کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر (یہ نہ ہو کہ) تم اسے دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔‘‘
اس نے کہا: قیامت کب ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَا الْمَسْؤلَ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ۔))
’’جس سے پوچھا گیا ہے وہ اس سلسلہ میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘
اس نے کہا: اس کی نشانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا:
(( إِذَا الْعَرَاۃُ الْحُفَاۃُ الْعَالَۃُ رِعَائُ الشَّائِ تَطَاوَلُوْا فِی الْبُنْیَانِ وَوَلَدَتِ الْاِمَائُ أَرْبَابِہِنَّ۔)) [1]
’’جب ننگے جسم، ننگے پاؤں والے، فقیر ونادار اور بکریوں کے چرواہے بلند عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں اور لونڈیاں اپنے مالک کو جننے لگیں ۔‘‘
راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ صحابہ نے اسے تلاش کیا لیکن وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ پھر آپ دو یا تین دن ٹھہرے رہے، پھر فرمایا:
(( یَاابْنَ الْخَطَّابِ! أَتَدْرِیْ مِنَ السَّائِلُ عَنْ کَذَا وَکَذَا؟))
’’اے ابن خطاب! ایسا ایسا پوچھنے والا کون تھا؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ذَاکَ جِبْرِیْلَ جَائَ کُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔)) [2]
’’وہ جبریل تھے تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلام، ایمان اور احسان کے معانی ومطالب کو سوال و
[1] احمد شاکر کی تحقیق سے مطبوعہ نسخہ میں ’’رباتہن‘‘ ہے۔
[2] اس کی سند صحیح ہے، اور شیخین کی شرط پر ہے۔ مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۵ کاش مولف یہاں صحیحین میں وارد الفاظ کو نقل کردیتے۔ (مترجم)