کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 173
وضاحت چاہتے، مفہوم پوچھتے اور خاص وعام تمام مسائل وحالات میں آپ سے سوالات کرتے رہتے۔ [1] اسی وجہ سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سو انتالیس (۵۳۹) احادیث روایت کی ہیں ۔ [2] اور ایک روایت کے مطابق پانچ سو سینتیس (۵۳۷) احادیث۔ [3] ان میں چھبیس (۲۶) احادیث کو امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔ جب کہ انتالیس (۳۹) احادیث روایت کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ اور اکیس (۲۱) امام مسلم رحمہ اللہ منفرد ہیں ۔ [4] اور بقیہ احادیث احادیث کی دوسری کتابوں میں ہیں ۔ [5] اب ہم مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی تعلیمی، تربیتی اور معاشرتی زندگی سے متعلق آپ کے بعض موافقت ونظریات ذکر کریں گے۔ ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کرنے والے کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک مرتبہ وہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص سفید کپڑے میں ملبوس نہایت خوبصورت چہرے اور بالوں والا پیدل چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ ہم اسے پہچانتے نہیں اور یہ مسافر بھی نہیں ہے۔ پھر اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں آسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔ وہ آیا اور اپنے گھٹنوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے پاس اور اپنے دونوں ہاتھوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں رانوں پررکھا اور کہا: اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( شَہَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ۔)) ’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔‘‘ اس نے کہا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَں تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْقَدْرِ کُلِّہٖ۔))
[1] عمر بن الخطاب، د/ علی الخطیب، ص:۱۰۸ [2] تاریخ الخلفاء ، السیوطی، ص:۱۳۳ [3] عمر بن الخطاب، د/ علی الخطیب، ص: ۱۰۹ [4] دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین: ۱/ ۴۰ [5] عمر بن الخطاب، د/ علی الخطیب، ص: ۱۰۹