کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 171
الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنْہُ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔))[1] ’’اللہ کی پناہ، خوف ہے کہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں ، بے شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق [2] سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے ایسے ہی خارج ہوں گے جیسے کہ تیر کمان سے۔‘‘ اس واقعہ سے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے مؤقف کی عظمت ومنقبت جلوہ گر ہے، بایں طور کہ جب آپ کے سامنے شرعی محرمات کی تحقیر وبے حرمتی کی گئی تو آپ قطعاً برداشت نہ کرسکے، اُس خارجی نے مقام نبوت ورسالت پر جوں ہی حملہ کیا آپ فوراً یہ کہتے ہوئے سامنے آئے: ’’اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں ۔‘‘ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہی ردّ عمل ان تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا جو نبوت ورسالت کے تقدس کی بے حرمتی کرنا چاہتے تھے۔ [3] جعرانہ میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ ، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا عینی مشاہدہ کیا … کی رغبت پر لبیک کہا۔ صفوان بن یعلی کا بیان ہے کہ یعلی رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ’’کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔‘‘ [4] ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، آپ کے اوپر کپڑے کا سائبان تھا، آپ کے ساتھ اس میں آپ کے دوسرے ساتھی بھی تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آیا، وہ ایک جبہ میں ملبوس تھا جو کہ خوشبو سے تر تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر کسی آدمی نے اس جبہ میں عمرہ کا احرام باندھا ہو جو خوشبو سے بھیگا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلی رضی اللہ عنہ کو ہاتھوں سے اشارہ کیا اور کہا: آؤ، یعلی آئے، دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہے، کچھ دیر تک آپ سے خراٹے جیسی آواز سنائی دیتی رہی، پھر آپ سے وہ کیفیت ختم ہوگئی، اور آپ نے کہا: ((أَمَّا الطِّیْبُ الَّذِیْ بِکَ فَاغْسِلْہُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَمَّا الْجُبَّۃُ فَانْزِعْہَا ثُمَّ اصْنَعْ فِیْ عُمْرَتِکَ کَمَا تَصْنَعُ فِیْ حَجِّکَ۔)) [5] ’’خوشبو کو تین مرتبہ دھو دو اور جبہ اتار پھینکو، اپنے عمرہ میں ویسا ہی کرو جیسا حج میں کرتے ہو۔‘‘ اور غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے اپنا نصف مال اللہ کے راستہ میں صدقہ کردیا اور جب لوگوں کو شدت
[1] صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۰۶۳۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۱۳۸ [2] اس کے دو مطلب بتائے گئے ہیں : (۱) ان کی تلاوت صرف زبان تک محدود ہے، دل سے اسے قبول نہیں کرتے نہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔ (۲) نہ ان کا عمل ہی قبول ہے نہ تلاوت ہی۔ (مترجم) [3] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق، ص: ۲۰۰ [4] محض الصواب فی فضائل امیر المومنین عمر بن الخطاب: ۲/ ۴۰۸ [5] صحیح البخاری: ۴۳۲۹۔ صحیح مسلم: ۱۱۸۰