کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 169
کا تعلق بنو عدی سے ہوتا تو تم ایسا نہ کہتے، تم ایسا اس لیے کہہ رہے ہو کہ جانتے ہو کہ یہ بنو عبد مناف کا ایک فرد ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عباس ذرا ٹھہریے! اللہ کی قسم، جب آپ نے اسلام قبول کیا تھا اس دن اگر خطاب بھی اسلام لاتے تو آپ کا اسلام لانا میرے نزدیک زیادہ محبوب تھا، اور میری یہ پسندیدگی صرف اس وجہ سے تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک خطاب کے مسلمان ہونے کے مقابلے میں ، اگر وہ اسلام لاتے، آپ کا اسلام لانا زیادہ محبوب تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( اِذْہَبْ بِہٖ یَا عَبَّاسُ إِلٰی رَحْلِکَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَأْتِنِیْ بِہٖ۔)) [1] ’’اے عباس! اسے اپنے خیمے میں لے جاؤ جب صبح ہو تو انہیں لے کر آنا۔‘‘ یہ ہے فاروقی موقف؛ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کا دشمن مسلمانوں کی فوج کے پاس سے ایسی حالت میں گزر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور ڈرتے ہوئے رسوائی کی حالت میں خود کو ظاہر کرتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور اس کی رضامندی کی خاطر اللہ کے اس دشمن کی گردن مار دیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کو خیر سے نوازنا چاہا اور ان کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیااور ان کی جان وخون کو محفوظ کردیا۔ [2] غزوہ حنین میں مشرکین نے اسلامی لشکر پر اچانک حملہ کردیا اور لوگ تیزی سے پیچھے کی طرف پلٹ گئے، کوئی کسی کی پروا نہ کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داہنی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ((أَیْنَ أَیُّہَا النَّاسُ؟ ہَلُمَّ إِلَیَّ ، أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) ’’اے لوگو! تم کہاں بھاگ رہے ہو؟ میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں ، میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں ۔‘‘ لیکن کسی نے آپ کی بات نہ سنی، اونٹ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، اکثر لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مہاجرین، انصار اور آپ کے اہل بیت کے چند لوگ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقی رہے۔ مہاجرین میں سے ابوبکر اور عمر اور اہل بیت میں سے علی بن ابی طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے لڑکے فضل بن عباس، ابوسفیان بن حارث، ان کے لڑکے، اور ربیعہ بن حارث وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ [3] اس غزوہ میں فاروقی مؤقف کو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں : ’’غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب معرکہ شروع ہوا تو فتح کی پہلی بالی مسلمانوں کے حق میں آئی، میں نے دیکھا کہ ایک مشرک آدمی ایک مسلمان کو زیر کیے ہے۔ میں
[1] السیرۃ النبویۃ، ص: ۵۱۸، ۵۱۹، ۵۲۰ [2] الفاروق مع النبی، د/ عاطف لماضۃ، ص: ۴۲ [3] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۲/ ۲۸۹۔ أخبار عمر، ص: ۴۱