کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 168
لگایا تھا کیونکہ نفاق کا اصطلاحی معنی ہے اسلام کو ظاہر کرنا اور کفر کو دل میں پوشیدہ رکھنا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا یہ تھا کہ حاطب کے ظاہر وباطن میں مخالفت ہے، کیونکہ انہوں نے جو خط بھیجا ہے وہ اس ایمان کے خلاف ہے جس کے راستہ میں جہاد کرنے اور قربانی دینے کے لیے نکلے ہیں ۔ [1] ٭ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے بہت متاثر ہوئے، چنانچہ کچھ دیر پہلے سخت غصہ میں تھے اور حاطب پر سخت ترین سزا کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے چند ہی لمحوں میں خشیت الٰہی سے رونے لگے، اور کہا: ’’اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ اچانک اس تبدیلی کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوئے تھے، لیکن جب معلوم ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی کا سبب کچھ اور ہے تو ان کے مجاہدانہ کارنامے کے احترام میں اور اپنے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کی غلطی سے چشم پوشی کرلی اور آپ کی بات مان گئے۔ [2] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر الظہران پہنچے اور ابوسفیان کو اپنے بارے میں خطرہ لاحق ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان طلب کرلے، تو اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اے ابوسفیان! تیری بربادی ہو، دیکھ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں موجود ہیں ۔ ہائے! قریش کی بری صبح۔ اس نے کہا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، پھر بچاؤ کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم، اگر وہ تم کو گرفتار کرلیں گے تو یقینا تمہاری گردن مار دیں گے، اس خچر کے پیچھے سوار ہوجاؤ میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلتا ہوں اور تمہارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان مانگ لوں گا۔ پھر وہ میرے پیچھے سوار ہوگیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس ہوگئے۔ میں اس کو لے کر آیا، میں جب بھی کسی مسلمان کے الاؤ کے قریب سے گزرتا تو پوچھتے کہ یہ کون ہے؟ لیکن جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کو دیکھتے اور میں اس پر سوار ہوتا تو کہتے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر آپ کے چچا ہیں یہاں تک کہ جب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے الاؤ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: یہ کون ہے؟ وہ میری طرف کھڑے ہوگئے اور جب خچر پر پیچھے ابوسفیان کو دیکھا تو کہا: یہ ابوسفیان، اللہ کا دشمن! اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں بلا کسی عہد وارادہ کے تجھ پر قابو عطا کیا، پھر وہ تیزی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانے لگا اور عمر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ابوسفیان ہے، بغیر ہمارے کسی عہد وارادہ کے اللہ نے اسے ہمارے قابو میں کر دیا ہے۔ مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں ۔ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسے پناہ دے دی ہے لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اپنی بات پر بضد رہے تو میں نے کہا: اے عمر! ذرا ٹھہرو، اللہ کی قسم اگر اس
[1] السیرۃ النبویۃ/ ابوفارس، ص: ۴۰۴ [2] التاریخ الإسلامی: ۷/ ۱۷۶، ۱۷۷