کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 167
چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے لیے تیاریاں مکمل کرلیں تو حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مکہ والوں کو ایک خط لکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کشی کی اطلاع انہیں دے دی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اس خط کے بارے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کردیا اور آپ نے اس کوشش کو آغاز ہی میں ختم دیا۔ آپ نے علی اور مقداد رضی اللہ عنہما کو بھیجا، انہوں نے مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر روضۂ خاخ کے پاس خط لے جانے والی عورت کو گرفتار کرلیا اور ڈرایا دھمکایا کہ اگر وہ خط نہیں دیتی تو اس کی تلاشی لیں گے، اس نے انہیں وہ خط دے دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کے لیے حاطب رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے بارے میں جلدی نہ کریں ، میں قریش کا حلیف تھا، میں قریش میں سے نہیں ہوں اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے وہاں (مکہ میں ) رشتے دار ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے مال اور اہل وعیال محفوظ ہیں ۔ لہٰذا میں نے چاہا کہ جب وہاں ان سے میرا کوئی خاندانی رشتہ نہیں تو میں اس طرح ان کو اپنا معاون بنا لوں تاکہ میرے قرابت داروں کا خیال رکھیں ، میں نے اپنے دین سے ارتداد یا اسلام لانے کے بعد کفر سے رضامندی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَمَا إِنَّہٗ قَدْ صَدَقَکُمْ۔))اس نے تم سے سچ سچ بات بتائی۔ عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّہٗ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا ، وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ اللّٰہُ اَطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَہِدَ بَدْرًا ،قَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔))[1]
’’انہوں نے بدر میں شرکت کی ہے، تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ بدر میں شرکت کرنے والوں سے مطلع ہے، اور ان کے بارے میں فرمایا ہے: تم جو چاہو کرو میں نے تم کو بخش دیا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان حاطب کے بارے میں جو گفتگو ہوئی اس سے مندرجہ ذیل عبرت وموعظت کی باتیں سامنے آتی ہیں :
٭ جاسوس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے قتل کرنے کی اجازت مانگی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے منع نہیں کیا، بلکہ ان کے بدری ہونے کی وجہ سے ان پر سزا نافذ کرنے سے منع کیا۔
٭ دین کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی سختی: دین کے بارے میں آپ کی سختی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب کہ آپ نے حاطب کی گردن زدنی کی اجازت مانگی۔
٭ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے ایمان باطل نہیں ہوتا: حاطب رضی اللہ عنہ کا عمل یعنی جاسوسی گناہ کبیرہ تھا۔ اس کے باوجود انہیں مومن مانا گیا۔
٭ عمر رضی اللہ عنہ نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاطب رضی اللہ عنہ پر اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنی میں منافقت کا حکم
[1] صحیح البخاری/ المغازی، حدیث نمبر: ۴۲۷۴