کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 166
غزوۂ خیبر کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کا محاصرہ کیا تو فوجی قیادت کا جھنڈا عمر بن خطاب کو دیا۔ آپ کے ساتھ مل کر کچھ لوگوں نے اہل خیبر سے مقابلہ کیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی بھی پیچھے ہٹ گئے اور لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَأُعْطِینَ اللِّوَائَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔))
’’کل جھنڈا میں ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
چنانچہ دوسرے دن ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما مجلس میں آگے آگے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں ، آپ نے ان کی آنکھ پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور جھنڈا ان کے ہاتھ میں دیا۔
غزوۂ خیبر ہی کے موقع پر جب صحابہ کی ایک جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ فلاں شہید ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( کَلَّا إِنِّیْ رَأَیْتُہٗ فِی النَّارِ فِیْ بُرْدَۃٍ غَلَّہَا ، أَوْعَبَائَ ۃٍ۔))
’’ہرگز نہیں ، میں نے اسے چادر یا عباء کی چوری کی وجہ سے جہنم میں دیکھا ہے۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا:
(( یَابْنَ الْخَطَّابِ! اِذْہَبْ فنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہٗ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُوْنَ۔))
’’اے ابن خطاب! جاؤ لوگوں میں اعلان کردو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔‘‘
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں نکلا اور اعلان کیا: سن لو! جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ [1]
۴: فتح مکہ اور غزوہ حنین و تبوک: …جب قریش نے بدعہدی کرکے حدیبیہ کی صلح توڑ دی تو مدینہ کی طرف سے متوقع خطرات سے ڈر گئے اور ابوسفیان کو صلح کی بحالی اور مدت صلح میں اضافہ کے مقصد سے مدینہ روانہ کیا، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ میں داخل ہوا لیکن مقصد میں کامیاب نہ ہوا، پھر وہاں سے نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے ہم کلام ہوا۔ لیکن آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات کرنے کے لیے کہا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں بات نہیں کروں گا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کی، آپ نے کہا: کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کر دوں ؟ اللہ کی قسم، اگر میں صرف چھوٹی چیونٹیوں کو تم سے جہاد کرنے کے لیے اپنا معاون پاؤں گا تو بھی جہاد کروں گا۔ [2]
[1] اس کی سند حسن ہے، اس کے رجال شیخین کے رجال ہیں ۔ الموسوعۃ الذہبیۃ ، مسند احمد: ۱؍ ۳۰، حدیث: ۲۰۳۔
[2] السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام: ۲/ ۲۶۵۔ أخبار عمر، ص: ۳۷