کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 165
کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، اس کا رسول ہوں ۔ انہوں نے کہا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، مسلمان ہو۔ انہوں نے کہا: کیا وہ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! وہ مشرک ہیں ۔ انہوں نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کیوں یہ گھٹیا شرط مان رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ [1] اور ایک روایت میں ہے: (( أَ نَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ لَنْ أُخَالِفَ أَمْرَہٗ وَلَنْ یُّضَیِّعَنِیْ۔)) [2] ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، اس کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہ کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ ہم سے کہتے نہ تھے کہ ہم خانہ کعبہ (بیت اللہ) جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے، لیکن کیا میں نے کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے کہا: نہیں ۔ آپ نے فرمایا: تم اس کے پاس جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں ابوبکر کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے ابوبکر! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، اللہ کے رسول ہیں ۔ میں نے کہا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، مسلمان ہیں ۔ میں نے کہا: کیا وہ مشرک نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، ایسے ہی ہے۔ میں نے فرمایا: پھر کیوں ہم اپنے دین میں رسوائی برداشت کریں ؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے اعتراض اور مخالفت سے باز آنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے جو حکم دیا ہے وہی حق ہے، ہم حکم الٰہی کی مخالفت ہرگز نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ [3] اور شعبان ۷ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو تیس (۳۰) آدمیوں کا قائد بنا کر وادئ ’’تُرْبَۃ‘‘[4] سے ہوتے ہوئے قبیلہ ہوازن کی پشت پر حملہ آور ہونے کو کہا۔ یہ وادی مکہ سے چار مراحل کی دوری پر ’’فلا‘‘ کے کنارے سے ہو کر گزرتی ہے، چنانچہ آپ اپنے ساتھ بنو ہلال کے ایک رہنما کو لے کر نکلے۔ [5] آپ رات میں چلتے اور دن میں چھپے رہتے، لیکن ہوازن والوں کو خبر مل گئی اور وہ سب بھاگ نکلے۔ عمر رضی اللہ عنہ ان کے گھروں تک گئے، لیکن کسی کو نہ پایا، پھر واپس مدینہ لوٹ آئے۔ [6]
[1] من معین السیرۃ/ الشامی، ص: ۳۳۳ [2] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۱۸۲۔ تاریخ الطبری: ۲/ ۶۳۴ [3] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۳/ ۳۴۶ [4] حجاز کے مشرق میں یہ وادی واقع ہے اور نجد کے بالائی حصہ سے اس میں پانی گرتا ہے۔ [5] ہلال بن عامر بن صعصعۃ بن معاویۃ بن بکر بن ہوازن۔ [6] الطبقات لابن سعد: ۳/ ۲۷۲