کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 164
اس واقعہ کو سنا تو کہا: کیا واقعی مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ سن لو! اللہ کی قسم، اگر ہم مدینہ واپس گئے تو باعزت لوگ ذلیلوں کو یقینا نکال دیں گے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ [1] غزوۂ خندق کے بارے میں جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے سورج ڈوبتے ڈوبتے نماز پڑھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور میں نے، اللہ کی قسم! ابھی پڑھی ہی نہیں ۔ پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ’’بطحان‘‘[2] گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔ [3] ۳: صلح حدیبیہ اور ہوازن و غزوہ خیبر: …صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجنے کے لیے بلایا تاکہ وہ اشراف قریش کو اپنی آمد کا مقصد بتا دیں ۔ تو آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنے بارے میں قریش سے خطرہ ہے، اور مکہ میں بنو عدی بن کعب کا کوئی فرد بھی نہیں ہے جو میری حفاظت کرسکے، نیز قریش سے میری عداوت اور ان کے لیے میری سختی سے بھی آپ واقف ہیں ۔ لہٰذا میں آپ کو ایسا آدمی بتاتا ہوں جو ان کے نزدیک مجھ سے زیادہ باعزت ہے۔ وہ عثمان بن عفان ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن عفان کو بلایا، اور انہیں ابوسفیان ودیگر اشراف قریش کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہماری آمد کا مقصد جنگ کرنا نہیں ہے، بلکہ ہم خانہ کعبہ (بیت اللہ) کی زیارت اور اس کی تقدیس وتعظیم کرنے آئے ہیں ۔ [4] جب صلح نامہ کے معاہدہ پر اتفاق ہوگیا اور صرف اس کی قرار دادوں کو لکھنا باقی رہا تو مسلمانوں میں اس معاہدہ سے متعلق سخت مخالفت ہوئی۔خاص طور سے ان دو قرار دادوں پر سخت اعتراض تھا جن میں ایک کے بموجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مسلمانوں کو واپس لوٹانا ضروری تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر پناہ لیں ، جب کہ قریش کے لیے ان افراد کا لوٹانا ضروری نہ تھا جو مرتد ہو کر ان کی پناہ لیں اور دوسرے کے بموجب اس سے مکہ میں داخل نہ ہوں اور حدیبیہ ہی سے مدینہ واپس لوٹ جائیں ۔ ان قرار دادوں پر سب سے مخالف اور اس کے بڑے معترض عمر بن خطاب، قبیلہ اوس کے سردار اسید بن حضیر اور خزرج کے سردار سعد بن عبادہ تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس معاہدہ کی علانیہ مخالفت
[1] السیریۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/ ۴۰۹۔ [2] مدینہ کی ایک وادی کا نام ہے۔ [3] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۵۹۶۔ [4] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۲/ ۲۲۸ ۔ أخبار عمر، ص:۳۴