کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 163
ساتھ مبعوث کیا! وہ اس مقام سے ذرّہ برابر نہ ہٹے، وہاں مارے جا رہے تھے، پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا اور وہ کنویں میں ڈال دیے گئے۔ آپ ان کے پاس گئے اور کہا: اے فلاں ! اے فلاں ! کیا جس چیز کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا تم نے اسے حق پایا؟ میں نے اس چیز کو حق پایا جس کا اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ان لوگوں سے بات کر رہے ہیں جو مردہ ہوگئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: جو میں ان سے کہتا ہوں اسے تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ [1] ۲۔ غزوۂ احد، بنو مصطلق اور خندق: …بلند ہمت رہنا اور ذلت ورسوائی کی موت کو نہ برداشت کرنا اگرچہ شکست کی علامتیں صاف ہی کیوں نہ ہوں ، فاروق رضی اللہ عنہ کے خاص مجاہدانہ اوصاف میں سے ہیں ، جیسا کہ دوسرے بڑے اسلامی معرکہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک ہوئے، یعنی غزوۂ احد میں پیش آیا۔ لڑائی جب اختتام کو پہنچ رہی تھی، ابوسفیان کھڑا ہوا اور کہا: کیا محمد زندہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) فرمایا: تم جواب نہ دو۔ اس نے پھر کہا: کیا مسلمانوں میں ابن ابی قحافہ زندہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواب نہ دو۔ اس نے کہا: کیا مسلمانوں میں ابن خطاب زندہ ہے؟ پھر اس نے خود ہی کہا: یہ سب قتل کردیے گئے، اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ خود کو قابو میں نہ رکھ سکے اور کہا: اے اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹ کہا۔ اللہ نے تیری رسوائی کا سارا سامان باقی رکھا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ’’أعل ہبل‘‘ ھبل کی جے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے جواب دو۔ صحابہ نے کہا: ہم کیا کہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو: ((اَللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلَّ)) اللہ سب سے بلند وبزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا: ((إِنَّ لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔))ہمارے لیے ’’عزیٰ‘‘ ہے، اور تمہارے لیے ’’عزیٰ‘‘ نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواب دو۔ صحابہ نے کہا: ہم کیا کہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو ((اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَالَکُمْ))اللہ ہمارا مالک ومددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ۔ ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کا بدلہ ہے اور جنگ مثل ڈول ہے۔ تم لاشوں کو مثلہ کیا ہوا پاؤ گے اس کا میں نے حکم نہیں دیا ہے، تم مجھے برا بھلا مت کہنا۔ [2] غزوہ بنو مصطلق میں بھی فاروق رضی اللہ عنہ کا منفرد مؤقف تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہا واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم مجاہدین میں سے تھے، ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات ماری، انصاری نے کہا: اے انصار! مدد کے لیے آؤ، اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرو! مدد کے لیے آؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سن کر فرمایا: ’’دَعُوْہَا فَاِنَّہَا منتنۃ‘‘ ’’اسے چھوڑ دو، یہ ناپاک بدبودار ہے۔‘‘ جب عبداللہ بن ابی نے
[1] مسند أحمد، حدیث نمبر: ۱۸۲، الموسوعۃ الحدیثیۃ۔ اس کی سند صحیح ہے اور شیخین کی شرط پر ہے۔ [2] صحیح البخاری/ المغازی، حدیث نمبر: ۴۰۴۳، السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/ ۳۹۲