کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 162
’’میں نے نہیں پسند کیا کہ دنیا کی کوئی چیز میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ۔ اے میرے بھائی!۔ سے زیادہ پسندیدہ ہو۔‘‘ [1] یہ بلند اور پاکیزہ محبت ہی تھی جس کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور جنگی فنون میں تجربہ، مہارت اور فہم وبصیرت نیز انسانوں کی طبیعت اور احساسات کی گہری معرفت نے اس محبت میں چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت اور آپ کے ساتھ کثرت گفتگو نے عمر رضی اللہ عنہ کو فصاحت وبلاغت، کلام میں روانی اور بات کرنے میں مختلف اسلوب عطا کیے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدانِ جہاد میں : علماء کا اتفاق ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بدر، احد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور کبھی غیر حاضر نہ ہوئے۔ [3] ۱: غزوۂ بدر: …سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ سے قبل صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے اور بہتر بات کہی اور کافروں سے جنگ کا مشورہ دیا۔ پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ بولے اور بہتر بات کہی اور کافروں سے جنگ کرنے کا مشورہ دیا۔ [4] غزوۂ بدر میں مسلمانوں میں سے سب سے پہلے مہجع [5] کی شہادت ہوئی، جو عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ [6] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت سنا تھا جب آپ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے مقتولین سے مخاطب تھے۔ پس انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا، میری نگاہ تیز تھی۔ میں نے چاند پہلے دیکھ لیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: اپنے بستر پر لیٹے ہوئے میں ابھی اسے دیکھ لوں گا۔ پھر آپ بدر والوں کے بارے میں ہمیں بتانے لگے۔ کہا: کل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان (مشرکین) کی ہزیمت گاہ دکھا رہے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ ان شاء اللہ کل اس مقام پر فلاں چت ہوگا اور اس مقام پر فلاں چت ہوگا۔ پھر وہ (جن کے نام لیے تھے)ان مقامات پر گرتے گئے۔ میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے
[1] سنن أبی داود/ الصلاۃ، حدیث نمبر: ۱۴۹۸۔ سنن ترمذی/ الدعوات، حدیث نمبر: ۳۵۶۲ [2] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبوالنصر، ص: ۹۴ [3] مناقب أمیر المومنین عمر ابن الخطاب/ ابن الجوزی، ص:۸۹ [4] الفاروق مع النبی، د/ عاطف لماضۃ، ص: ۳۲ [5] الطبقات/ ابن سعد: ۳/ ۳۹۱، ۳۹۲ سند منقطع ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ [6] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۲/ ۳۸۲۔ صحیح التوثیق، ص:۱۸۷