کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 161
آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ بعض آیات کے نزول کے فوراً بعد سب سے پہلے ان آیات کو آپ ہی نے سنا، اپنے محفوظات (یادداشت) کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھنے کی کوشش کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان والہانہ لگاؤ تھا اور استاد وشاگرد کے درمیان منفرد نوعیت کی علمی فضا تیار کرنے میں ایسے ہی لگاؤ کا اہم کردار ہوتا ہے اور پھر نئی نئی معلومات کی وجہ سے علمی و ثقافتی نتائج کی خوبیاں وبھلائیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ رہے اور خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اور آپ کی دعوت کی نشر واشاعت کے راستہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ حدیث میں وارد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ)) [1]
’’تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:
اے اللہ کے رسول! آپ میرے نزدیک میری جان کے علاوہ بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے عمر! (ایمان مکمل) نہیں ، یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ آپ نے فرمایا: اب آپ میری جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب (ایمان مکمل ہوا) اے عمر۔ [2]
عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَنْسَایَا أَخَیَّ دُعَائِکَ۔)) [3]
’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولنا۔‘‘
تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۵
[2] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۶۶۳۲
[3] سنن أبی داود/ الصلوٰۃ، حدیث نمبر: ۱۴۹۸، سنن ترمذی/ الدعوات، حدیث نمبر: ۳۵۶۲۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سنن ابن ماجہ/ المناسک: ۲۸۹۴ بروایت عمرؓ، اور محدث عصر حاضر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مترجم)