کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 160
پڑھنے لکھنے کی اسی خصوصیت نے آپ کو اس قابل بنا دیا کہ اس وقت آپ قوم کی تہذیب وثقافت سے آراستہ ہوجائیں ۔ اگرچہ ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو نکھارنے، صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، کردار کو نمایاں کرنے اور نفس کو مہذب بنانے کا سب سے بڑا محرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی صحبت اور تعلیم گاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہونا تھا۔ بایں طور کہ آپ اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں عوالی … مدینۃ النّبی سے متصل علاقہ … میں قیام پذیر ہوئے تو وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہے۔ عوالی کا یہ علاقہ موجودہ دور میں مسجد نبوی سے متصل ہے۔ کیونکہ آبادی بڑھ گئی ہے اور شہر مدینہ کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے، اور گرد وپیش کے علاقوں کو شامل ہوگیا ہے۔ غرض یہ کہ اسی علاقہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے خود کو منظم کیا اور علوم ومعارف سیکھنے کے لیے پوری انسانیت کے معلم وہادی کے سامنے تعلیم گاہ نبوت میں زانوئے تلمذ تہ کرنے کے حریص ہوئے۔ ایسا ہادی اور معلم جسے اس کے ربّ نے تعلیم وتربیت دی تھی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ سے قرآن، حدیث یا کسی معاملہ، واقعہ اور ارشاد ورہنمائی سے متعلق کوئی بھی تعلیمِ نبوی کا پند نہیں چھوٹتا تھا۔
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں اور بنو امیہ بن زید کا میرا ایک انصاری پڑوسی، ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے تھے، ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں آتا۔ جب میں آتا تو اس دن کی وحی وغیرہ کی خبریں لاتا، اور جب وہ آتا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ [1] یہ روایت ہمیں اس شرعی چشمۂ فیضان کی خبر دیتی ہے جس سے عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے علم، تربیت اور ثقافت کی آبیاری کی، یعنی وہ چشمۂ ہدایت اللہ عزوجل کی کتاب ہے، جو واقعات و حوادث کے مطابق تدریجاً رفتہ رفتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے صحابہ کو پڑھ کر سناتے تھے، انہوں نے اس کے معانی کو یاد کیا، فہم وبصیرت میں گیرائی سے کام لیا اور اس کی بنیادی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ پس اس فہم وبصیرت کا ان کی ذات، دل ودماغ اور روح پر گہرا اثر تھا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو تعلیم و تربیت کے میدان میں قرآنی منہج وفکر سے ہم آہنگ ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ اور آپ کے حیات وکارناموں کو پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس صاف وشفاف فیضانِ الٰہی پر تھوڑی دیر ٹھہر کر غور کرے جس نے صلاحیتوں کو نمو بخشی، عبقری ہستیوں کو نکھارا اور قوم کی ثقافت کو ترقی عطا کی، اس فیضانِ الٰہی سے میری مراد قرآنِ مجید ہے۔
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد ہی سے حفظ قرآن اور اس کے معانی ومفاہیم پر غور وتدبر کرنے کے حریص تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہتے، جو آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتیں انہیں آپ سیکھ لیتے، اس طرح آپ نے تمام آیات اور سورتوں کو حفظ کرلیا۔ آپ کو بعض آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائیں اور آپ ان آیات کو قراء ت نبوی کی روایت پر ہی پڑھنے کے حریص رہے۔ [2]
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۷
[2] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۸