کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 159
ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اسْتَعْمَلَہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَمُوَْ عَلٰی عَمَلِ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْخُلُہٗ بِہِ الْجَنَّۃَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ حَتّٰی یَمُوْتَ عَلٰی عَمَلِ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہُ بِہِ النَّارِ۔)) [1] ’’بے شک اللہ عزوجل جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں والا کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے کاموں میں سے کسی کام پر وفات پاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل کردیتا ہے، اور جب بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں والا کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے کاموں میں سے کسی کام پر وفات پاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس عمل کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کردیتا ہے۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا: ﴿ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ﴾ (القمر:۴۵) ’’عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کون سا لشکر شکست کھائے گا؟ کون سا لشکر غالب آئے گا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غزوۂ بدر میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ڈھال سے بچاؤ کر رہے تھے اور پڑھ رہے تھے: ﴿ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ﴾ (القمر:۴۵) اس دن میں نے اس آیت کی تفسیر کو جان لیا۔ [2] (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی صحبت سیّدناعمر رضی اللہ عنہ باشندگان مکہ کے ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے اَن پڑھ معاشرہ میں لکھنا پڑھنا سیکھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو علم سے والہانہ لگاؤ تھا اور آپ کی کوشش تھی کہ ان منتخب افراد میں سے ہو جائیں جنہوں نے اپنی اُمیت (ناخواندگی) کو مٹا دیا، نفوس کو مہذب بنا لیا اور مختلف عوامل واسباب کی وجہ سے زمانۂ رسالت میں ایک اونچا مقام حاصل کرلیا۔ ان عوامل میں سے ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ پڑھنے لکھنے پر خصوصی توجہ دیتے اور اس وقت اس کی بڑی اہمیت تھی۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے پڑھنا لکھنا اور ابتدائی تعلیم حرب بن امیہ یعنی ابوسفیان کے والد سے حاصل کی ۔ [3]
[1] مسند أحمد، الموسوعۃ الحدیثیۃ، حدیث نمبر: ۳۱۱ [2] تفسیر ابن کثیر: ۴/ ۲۶۶ [3] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۷۔