کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 154
’’بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا آتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کیے) اس حال میں کہ اس کے حکم سے تابع کیے ہوئے ہیں ، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘ ٭ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات میں تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، ظاہر ہوں یا پوشیدہ: ﴿ وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ﴾ (النحل:۵۳) ’’اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، پھر جب تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف تم گڑگڑاتے ہو۔‘‘ ٭ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اسی کی وحدانیت کا اعتراف واقرار کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں: ﴿ بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴾ (الزمر:۶۶) ’’بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہوجا۔‘‘ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، ص: ۶۸، از ڈاکٹر محمد الصلابی) قرآنِ کریم کی موافقت، اسباب نزول پر خصوصی توجہ، اور بعض آیات کی تفسیر: (۱) قرآنِ کریم کي موافقت: …عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ دلیر اور بہادر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نامانوس عمل کو صادر ہوتا دیکھتے تو پوچھ لیتے، مکمل صداقت اور صاف گوئی کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کرتے، آپ کے کمال دانائی اور قرآنِ کریم کے مقاصد پر عبور ونکتہ فہمی کی یہ اہم دلیل ہے کہ بعض مواقع پر آپ کے نظریہ اور رائے کی تائید کے موافق قرآنِ مجید کا نزول ہوا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں نے اللہ تعالیٰ کی تین چیزوں میں موافقت کی… یا(یہ الفاظ ہیں ) میں نے اپنے ربّ کی تین چیزوں میں موافقت کی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں تو بہتر ہوگا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نازل کر دیا۔ اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس نیک اور بد سبھی لوگ آتے ہیں ، لہٰذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین علیہ السلام کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے تو بہتر ہوتا۔ تو اللہ نے پردہ سے متعلق آیات نازل فرما دیں ۔ اور مجھے خبر ملی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کی سرزنش کی ہے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا: اگر تم اپنی حرکت سے باز آجاؤ (تو بہتر ہے) ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عطا کرے گا۔ یہاں تک کہ میں آپ کی ایک بیوی کے پاس آیا، تو اس نے کہا: اے عمر! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صلاحیت