کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 152
باحیات رہو۔‘‘ آپ نے کہا: پھر چھپنا کیوں ؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، آپ ضرور بالضرور کھلے عام نکلیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ علانیہ دعوت کا وقت آگیا ہے، اور اسلامی دعوت اتنی طاقتور ہوچکی ہے کہ خود اپنا دفاع کرسکے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت کی اجازت مل گئی، آپ صحابہ کی دو صفوں کے درمیان نکلے۔ ایک میں عمر تھے اور دوسرے میں حمزہ۔ وہ گرد آلود ہوگئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، جب قریش نے (آپ کے ساتھ عمر اور حمزہ رضی اللہ عنہما کو) دیکھا تو انہیں اس قدر تکلیف ہوئی کہ اتنی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ’’فاروق‘‘ کا لقب دیا۔ [1] اللہ تعالیٰ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں کو قوت بخشی، آپ بہت نڈر آدمی تھے، اس بات کی بالکل پروا نہ کرتے تھے کہ میرے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ آپ اور حمزہ رضی اللہ عنہما کے ذریعہ سے دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہے۔ [2] سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مشرکین قریش کو چیلنج کیا، ان سے لڑائی کی، یہاں تک کہ کعبہ میں خود [3] اور آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے نماز پڑھی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا اسلامی دعوت پر اثر: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب سے جناب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے ہم کافروں پر برابر بھاری رہے، ہمیں یاد ہے کہ ہم میں خانہ کعبہ کے طواف اور اس میں نماز پڑھنے کی طاقت نہ تھی یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو آپ نے ان سے لڑائی کی، یہاں تک کہ وہ ہمیں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر ہم نے نماز پڑھی اور طواف کیا۔ [4] نیز آپ کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا ایک فتح اور آپ کی ہجرت ایک مدد اور خلافت ایک رحمت تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم خانہ کعبہ میں نماز اور اس کے طواف کی طاقت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے۔ جب آپ اسلام لے آئے تو ہم نے ان سے لڑائی کی، یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہم نماز پڑھنے لگے۔ [5]
[1] حلیۃ الأولیاء: ۱/۴۰۔ صفۃ الصفوۃ: ۱/۱۰۳۔ ۱۰۴ [2] الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب، ص: ۲۶۔ ۲۷ [3] الریاض النضرۃ/ تالیف، محب الطبری: ۱/ ۲۵۷ [4] فضائل الصحابۃ، أحمد بن حنبل: ۱/ ۳۴۴ اس کی سند حسن ہے۔ [5] الشیخان أبوبکر وعمر بروایت بلاذری، ص: ۱۴۱