کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 150
اور (کرۂ خاک) کے نیچے ہر ایک چیز پر ہے۔ اگر تو اونچی بات کہے تو وہ ہر ایک پوشیدہ بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ بہترین نام اسی کے ہیں ۔‘‘ یہ آیات آپ کے دل پر بہت اثر انداز ہوئیں ۔ آپ نے کہا: کیا قریش اسی سے بھاگتے ہیں ؟ پھر جب اللہ کے اس فرمان تک پہنچے: ﴿ إِنَّنِي أَنَا اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ ﴿١٥﴾ فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ﴾ (طٰہ: ۱۴۔ ۱۶) ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں ۔ پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ قیامت یقینا آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔ پس اب اس کے یقین سے تجھے کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو، پس تو ہلاک ہوجائے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے کہا: جو ایسی بات کہہ رہا ہو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت نہ کی جائے۔ مجھے بتاؤ محمد کہاں ہیں ؟ [1] قبول اسلام: جب خباب رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ سنا تو گھر سے نکلے۔ وہ چھپے ہوئے تھے۔ اور کہا: اے عمر! خوش ہوجاؤ، مجھے امید ہے کہ آپ کے حق میں بروز سوموار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہو چکی ہے: (( اَللّٰہُمَّ اَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِأحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلِ بْنِ ہِشَامٍ أَوْبِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔)) [2] ’’اے اللہ! ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ بہتر ہو اس کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کردے۔‘‘ آپ ( رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ بتاؤ۔ جب انہوں نے بات کی سچائی کا اعتبار کرلیا تو کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کے نیچے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار سنبھالی، گردن میں لٹکا لی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور
[1] فضائل الصحابۃ؍ احمد بن حنبل: ۱؍۳۴۴ [2] عمر بن خطاب، الطنطاویات، ص: ۱۱۷،ترمذی ، مناقب:۳۶۸۱۔