کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 148
وہ سخت گرمی کے دن میں ، ٹھیک دوپہر کے وقت گردن میں تلوار لٹکائے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے کچھ ساتھیوں کو قتل کرنے کے لیے نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں ابوبکر، علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم اور دیگر حضرات تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں رہ گئے تھے اور حبشہ ہجرت نہیں کی تھی۔ قریش نے عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا تھا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی صفا پہاڑی کے نیچے دار ارقم میں جمع ہیں ۔ راستہ میں نعیم بن عبداللہ النحّام رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی، تو انہوں نے کہا: اے عمر کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے کہا: میں اس صابی (دین بدل دینے والے) کے پاس جا رہا ہوں جس نے قریش کی جمعیت کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اس کے دیدہ وروں کو بے وقوف کہا ہے، ان کے دین میں عیب لگایااور ان کے معبودوں کو گالی دی ہے، تاکہ اسے قتل کردوں ۔ نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عمر! تم کتنے غلط راستہ پر چل رہے ہو، اللہ کی قسم تم کو خود تمہاری ذات نے دھوکہ دیا ہے، تم انتہا پسندی کے شکار ہوگئے ہو اور بنو عدی کو برباد کرنا چاہتے ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دو گے اور بنو عبد مناف تم کو زمین پر آزاد چھوڑ دیں گے؟ اس طرح دونوں آپس میں بحث کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا گمان ہے کہ تو بھی صابی (دین بدل دینے والا) ہوگیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو تجھ ہی سے شروع کروں گا۔ جب نعیم رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو کہا: میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ تمہارے خاندان اور تمہارے بہنوئی کے گھر والے بھی مسلمان ہوچکے ہیں اور جس گمراہی پر تم ہو اس کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو پوچھا کہ وہ کون کون ہیں ؟ انہوں نے کہا: تمہارے بہنوئی وچچیرے بھائی اور تمہاری بہن۔ [1] اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر پہنچنا اور ان کا بھائی کے سامنے ثابت قدم رہنا: عمر بن خطاب نے جب سنا کہ ان کی بہن اور بہنوئی اسلام لے آئے ہیں تو آپ کو سخت غصہ آیا اور ان کے پاس پہنچے۔ جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے پوچھا: کون؟ آپ نے کہا: ابن خطاب۔ وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں لیے قرآن پڑھ رہے تھے۔ جب عمر کے آنے کا احساس ہوا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کو اسی حالت میں بھول کر چھپنے لگے۔ جب آپ داخل ہوئے اور آپ کی بہن نے آپ کو دیکھا تو چہرہ سے غصے کو بھانپ لیا، جلدی سے صحیفہ کو اپنی ران کے نیچے چھپا لیا۔ آپ نے کہا: ابھی مبہم اور پست آواز جو میں نے تمہارے پاس سنی یہ کون سی بات تھی۔ درحقیقت وہ لوگ سورہ ’’طٓہ‘‘ کی تلاوت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ہماری آپس کی
[1] سیرۃ ابن ہشام: ۱؍ ۳۴۳ سنداً منقطع ہے۔ طبقات ابن سعد: ۳/ ۲۶۷، بروایت قاسم بن عثمان البصری عن انس اور قاسم ضعیف ہیں ، فضائل الصحابۃ؍ احمد بن حنبل کی تحقیق میں د؍ وصی اللہ نے ان روایات کی تحقیق کی ہے۔