کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 146
لوگ تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔[1]
آپ نے بچپن ہی سے ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا اور سختی و تنگی کے ماحول میں جوان ہوئے، ایسی سختی کہ عیش و عشرت اور مالداری کی کسی علامت کو جانا ہی نہیں ، آپ کے باپ خطاب سختی سے آپ کو چراگاہ کی طرف اونٹ چرانے کے لیے بھیجتے تھے۔ باپ کی اس سختی نے آپ کی ذات پر برا اثر چھوڑا، آپ اسے اپنی زندگی بھر یاد کرتے رہے۔ عبد الرحمن بن حاطب اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :
’’میں ضجنان[2] میں عمر بن خطاب کے ساتھ تھا، آپ نے مجھ سے کہا: میں اسی جگہ خطاب کے اونٹوں کو چراتا تھا، وہ بہت سخت تھے، میں کبھی اونٹ چراتا اور کبھی لکڑیاں چننے چلا جاتا۔‘‘[3]
آپ صرف اپنے باپ کے اونٹوں کو نہیں چراتے تھے بلکہ بنی مخزوم سے تعلق رکھنے والی اپنی خالاؤں کے اونٹ بھی چراتے، اس بات کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ نے خود اس وقت کیا جب کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے ایک دن آپ کو خیال آیا کہ میں امیر المومنین بن گیا ہوں ، اب مجھ سے افضل کون ہے؟ تو آپ اپنے نفس کا غرور توڑنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ عمر بکریوں کا ایک چرواہا تھا، بنی مخزوم سے تعلق رکھنے والی اپنی خالاؤں کے اونٹوں کو چراتا تھا۔
(۲)
قبولِ اسلام اور ہجرت
قبولِ اسلام:
سب سے پہلے آپ کے دل پر نور کی کرنیں اس وقت پڑیں جب آپ نے دیکھا کہ قریش کی عورتیں آپ اور آپ جیسے دیگر لوگوں کی بدسلوکیوں سے تنگ آکر اپنا ملک چھوڑ کر دور دوسرے ملک میں جا رہی ہیں ۔ اس وقت آپ کا دل نرم پڑگیااور ضمیر نے آپ کو ملامت کی۔ آپ نے ان پر اظہار غم کیا اور ان کو ایسا بہترین کلام سنایا کہ جسے سننے کی وہ آپ سے کبھی امید نہیں رکھتی تھیں ۔ [4]
امّ عبداللہ بنت حنتمہ بیان کرتی ہیں : جب ہم ہجرت حبشہ کے لیے کوچ کر رہی تھیں تو عمر آئے اور میرے پاس کھڑے ہوگئے۔ ہمیں ان کی بہت سی اذیتوں اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، انہوں نے مجھ سے کہا: اے امّ عبداللہ! کیا کوچ کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: ہاں ، اللہ کی قسم، ہم ضرور اللہ کی زمین میں ہجرت کریں گی۔ تم لوگوں
[1] الادارۃ الاسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب، فاروق مجدلاوی ص:۹۰۔
[2] مکہ سے ایک منزل (تقریباً ۱۲ میل) کی دوری پر ایک پہاڑ ہے اور ایک قول کے مطابق ۲۵ کلومیٹر کی دوری پر ایک پہاڑ ہے۔
[3] تاریخ ابن عساکر :۵۲/۲۶۸، طبقات ابن سعد: ۳/۲۲۶، د/ عاطف لماضہ نے اس روایت کے صحیح الاسناد ہونے کی توثیق کی ہے۔
[4] اخبار عمر، الطنطاویات، ص: ۱۲