کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 132
۱۸… سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کی گفتگو کے بعد ہی دعوائے امارت سے دست بردار ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی اور آپ کی فرماں برداری کو قبول کیا اور آپ کے چچا زاد بھائی بشیر بن سعد انصاری سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع میں سب سے پہلے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے والے شخص تھے۔ کسی صحیح نص کے ذریعہ سے چھوٹے یا بڑے کسی خلفشار کا ثبوت نہیں ملتا اور نہ کسی انقسام اور پارٹی بندی کا ثبوت ملتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک خلافت کا متمنی اور امیدوار رہا ہو، جیسا کہ بعض تاریخ نگاروں کا زعم ہے۔ اسلامی اخوت برابر برقرار رہی بلکہ صحیح نصوص کے مطابق اس میں مزید اضافہ ہوا اور تقویت حاصل ہوئی۔
۱۹… متعدد آیات کریمہ اور احادیث نبویہ وارد ہوئی ہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اہل سنت والجماعت کا سلف سے لے کر خلف تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع رہا ہے کیونکہ ایک طرف آپ کی فضیلت و بزرگی اور خدمات جلیلہ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیگر صحابہ پر نماز کی امامت کے لیے مقدم کیا جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مراد ومقصود کو سمجھ لیا اور خلافت میں بھی آپ کو مقدم رکھنے پر اجماع واتفاق فرمایا۔
۲۰… اسلامی خلافت ہی وہ طریقہ کار ہے جسے امت اسلامیہ نے حکومت کے لیے طریقہ واسلوب کے طور پر اختیار کیا اور اس پر اجماع واتفاق فرمایا جس کے ذریعہ سے امت اپنے امور و مسائل اور اپنے مصالح کی حفاظت کرتی رہی۔ خلافت کی نشوونما امت کی ضرورت اور تسلیم سے مرتبط رہی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے انتخاب میں جلدی کی۔ خلافت ہی مسلمانوں کا نظام حکومت ہے جس نے اپنے اصول مسلمانوں کے دستور کتاب وسنت سے حاصل کیے ہیں ۔ فقہائے امت نے اسلامی خلافت کی بنیاد پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ شوریٰ اور بیعت یہ دو اصل ہیں جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔
۲۱… علامہ ابوالحسن علی ندوی نے خلافت نبوت کے شرائط و مطالبات پر گفتگو کرتے ہوئے سیرت صدیقی کی روشنی میں دلائل و براہین سے ثابت کیا ہے کہ خلافت کی تمام شرائط ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر موجود تھیں ۔
۲۲… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بیعت عامہ کے بعد امت کو جو خطاب فرمایا، اپنے ایجاز کے باوجود چنندہ اسلامی خطبات میں سے ہے، اس کے اندر آپ نے حکومت کی قیادت کے لیے اپنے طریقہ کار کو بیان فرمایا اور حاکم و محکوم کے مابین تعامل کے سلسلہ میں عدل و رحمت کے اصول مقرر کیے اور اس بات پر زور دیا کہ حاکم کی اطاعت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر موقوف ہوتی ہے اور امت کے قوت و غلبہ میں جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خاص طور سے ذکر فرمایا اور معاشرہ کو زوال وفساد سے محفوظ رکھنے میں فواحش ومنکرات سے اجتناب کی اہمیت کے پیش نظر اس پر زور دیا۔
۲۳… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت کے لیے تیار کردہ پالیسی کو نافذ کرنے کا ارادہ فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم