کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 131
بیان فرمائی ہے۔ ۱۵… ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ پر عظیم ایمان کے مالک تھے۔ آپ نے حقیقت ایمان کو سمجھا تھا اور کلمہ توحید آپ کے قلب وروح میں پیوست ہو چکا تھا، اس کے آثار آپ کے اعضاء وجوارح میں نمایاں ہو چکے تھے۔ ان آثار کے ساتھ آپ نے زندگی گذاری، آپ بلند اخلاق سے متصف اور برے اخلاق سے پاک رہے، شریعت الٰہی کی پابندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کے حریص رہے اور آپ کا ایمان باللہ آپ کی حرکت وہمت، نشاط وسعی، جہد ومجاہدہ، جہاد و تربیت اور عزت و سربلندی کا باعث رہا اور آپ کے دل میں بہت زیادہ ایمان ویقین تھا۔ اس سلسلہ میں صحابہ میں سے کوئی آپ کے مساوی نہ تھا۔ ۱۶… ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے اور سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والے تھے۔ اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ امت کے سب سے بڑے عالم ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور علم وفضل میں تمام صحابہ پر تقدم و فوقیت کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیشہ رہنا تھا۔ آپ ہمیشہ رات ہو یا دن، سفر ہو یا حضر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے۔ آپ عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر مسلمانوں کے مسائل کے سلسلہ میں گفتگو فرماتے۔ مدینہ سے جو پہلا حج کیا گیا اس کا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مقرر فرمایا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ مناسک حج کا علم انتہائی دقیق ہے۔ اگر وسعت علم نہ ہوتی تو آپ کو امیر نہ بناتے۔ اسی طرح نماز میں آپ کو نیابت سونپی۔ اگر علم نہ ہوتا تو آپ کو نائب نہ مقرر کرتے۔ آپ کے سوا کسی دوسرے کو نہ تو حج میں اور نہ نماز میں نیابت سونپی اور زکوٰۃ کی تفصیلی کتاب جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا، انس رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حاصل کی اور زکوٰۃ سے متعلق یہ سب سے صحیح ترین روایت ہے۔ اسی پر فقہاء وغیرہ نے ناسخ ومنسوخ کو سمجھنے کے سلسلہ میں اعتماد کیا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ آپ ناسخ حدیثوں کے بڑے عالم تھے۔ آپ سے کوئی ایسا قول منقول نہیں جو نصوص کتاب وسنت کے مخالف ہو۔ یہ آپ کے انتہائی درجہ مہارت و علم کی دلیل ہے۔ ۱۷… جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگ مضطرب و پریشان ہو کر ہوش وہواس کھو بیٹھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے امت کو ثبات عطا فرمایا اور اس موقع پر آپ نے عظیم مؤقف اختیار فرمایا اور اعلان کیا: ’’جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے رہے ہوں وہ سن لیں ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے ہیں وہ جان لیں اللہ تعالیٰ زندہ وجاوید ہے، اس پر موت طاری نہیں ہو سکتی۔‘‘ اسی طرح سقیفہ بنی ساعدہ میں آپ کا عظیم مؤقف سامنے آیا، امت کو کسی فتنہ سے دوچار کیے بغیر انصار کو اپنی رائے پر مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے مان لیا کہ یہی حق ہے چنانچہ آپ نے کتاب و سنت سے انصار کی فضیلت بیان کر کے ان کی تعریف کی۔