کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 129
خلاصہ ۱… خلفائے راشدین کی سیرت اور ان کی تابناک تاریخ ایمان اور صحیح اسلامی جذبات کے مصادر میں سے ہے، جس سے امت برابر ایمانی روشنی حاصل کر رہی ہے اور اس سے سامانِ دعوت لے کر لوگوں کے دلوں میں انوار حق روشن کر رہی ہے تاکہ اسلامی دعوت و تاریخ اعدائے اسلام کے باطل جھونکوں سے بجھنے نہ پائے۔ ۲… مسلمان بلکہ پوری انسانیت کو آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل، حقائق اور ان کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے آثار کی معرفت حاصل کریں اور اس علو منزلت کو جانیں جس کی وجہ سے وہ بشریت کی تاریخ میں نادر مثالی حیثیت کے حامل قرار پائے۔ ۳… اسلامی تاریخ عام طور سے اور صدر اوّل کی تاریخ خاص طور سے تزویر،تشکیک اور تحریف و تبدیل اور حذف و اضافہ کا شکار ہوئی ہے۔ یہ بدترین کارنامے روافض و مستشرقین، یہود و نصاریٰ اور لادینی ذہنیت کے حاملین نے انجام دیے ہیں ۔ اس لیے امت پر فرض کفایہ ہے کہ وہ حقائق کی تصحیح کریں ۔ جو شخص اپنے اندر صدر اوّل کی تاریخ کی تصحیح کی صلاحیت رکھتا ہے اس کو اسے افضل ترین عبادت تصور کرتے ہوئے اپنی مقدور بھر جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے تاکہ نوجوانان امت کے سامنے ان کے اسلاف کی صالح مثال ہو، جس کی وہ اقتداء کریں اور ان کے منہج پر چل کر اپنی سیرت وکردار کی اصلاح کریں اور وہ تابناک عہد تازہ کر دیں ۔ ۴… ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت دروس و عبر سے بھری ہوئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی شخصیت تاریخ اسلام میں سب سے عظیم ہے۔ یہ صحابی جلیل دور جاہلیت ہی سے مکارم اخلاق اور صفات حمیدہ سے متصف رہے، نہ کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ شراب پی۔ ۵… ابوبکر رضی اللہ عنہ انساب کے عالم تھے اور عربوں کے دلوں میں آپ کی جو محبوب ترین خصوصیت تھی، وہ یہ کہ انساب میں عیب نہیں نکالتے تھے اور نہ ان کے عیوب اور نقائص کا تذکرہ فرماتے۔ آپ قریش میں سب سے بڑے انساب کے ماہر اور قریش کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آپ تجارت میں مشہور تھے، اپنا مال پوری فیاضی وسخاوت کے ساتھ خرچ کرتے اور جاہلیت میں یہ بات آپ کے سلسلہ میں معروف تھی۔ ۶… ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک عظیم گراں مایہ خزانہ تھے، جسے اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کر رکھا تھا، قریش کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھے۔ بلند اخلاق اور نرم خوئی کی وجہ سے لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے اور آپ کا شمار ان عظیم لوگوں میں ہوتا تھا جو دوسروں سے مانوس ہوتے اور لوگ ان سے مانوس ہوتے ہیں ۔