کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 127
شعار اور متقی ہو۔ حق، صداقت اور نرمی آپ کی شان تھی۔ آپ کی بات فیصلہ کن اور حتمی ہوا کرتی تھی۔ آپ کا حکم بردباری اور دور اندیشی پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ آپ کی رائے علم وعزم کا پر تو ہوتی تھی۔ آپ کے ذریعہ سے دین قائم ہوا، ایمان قوی ہوا، اللہ کا حکم غالب آیا۔ واللہ آپ نے بڑی سبقت کی، اپنے بعد میں آنے والوں کو سخت تھکا دیا اور خیر کے ساتھ فوزمبین حاصل کی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اللہ کی قضا و قدر پر ہم راضی ہیں ، اس کے حکم کو تسلیم کرتے ہیں ۔ واللہ! مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی موت جیسی مصیبت نہیں آئی۔ آپ دین کے لیے عزت و امان اور پناہ گاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا دے اور ہمیں آپ کے اجر سے محروم نہ کرے اور آپ کے بعد ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے۔‘‘
لوگ خاموشی کے ساتھ آپ کی یہ باتیں سنتے رہے پھر جب آپ نے اپنی بات مکمل کر لی تو لوگ رو پڑے اور رونے کی آواز بلند ہوئی اور سب نے کہا: آپ نے جو کچھ کہا سچ کہا۔[1]
اور ایک روایت میں ہے کہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے انھیں چادر اوڑھا دی گئی تھی، فرمایا: ’’میرے نزدیک اس چادر سے ڈھکے ہوئے شخص سے بڑھ کر کوئی نہیں جس کے نامہ اعمال کے ساتھ مجھے اللہ سے ملاقات کرنا زیادہ محبوب ہو۔‘‘[2]
وفات کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عمر تریسٹھ(۶۳) سال تھی۔ اس پر تمام روایات متفق ہیں ۔ آپ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر برابر تھی۔ آپ کو آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، جس کی آپ نے وصیت فرمائی تھی۔[3] آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے برابر رکھا گیا[4] اور آپ کی نماز جنازہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی قبر میں عمر، عثمان، طلحہ اور آپ کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہم اترے اور آپ کی لحد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے چپکا کے رکھا گیا۔[5]
اس طرح چہار دانگ عالم میں اللہ کے دین کی نشر و اشاعت کی خاطر عظیم جہاد کرتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انسانی تہذیب و تمدن اس بطل جلیل کی مقروض رہے گی جس نے وفات نبوی کے بعد
[1] التبصرۃ لابن الجوزی: ۱/۴۷۷۔ ۴۷۹ بحوالہ اصحاب الرسول: ۱/۱۰۸۔
[2] تاریخ الاسلام للذہبی: عہد الخلفاء الراشدین ۱۲۰۔
[3] الطبقات لابن سعد: ۳/۲۰۳۔ ۲۰۴، وإسنادہ صحیح۔
[4] تاریخ الاسلام للذہبی: عہد الخلفاء الراشدین ۱۲۰۔
[5] اصحاب الرسول: ۱/۱۰۶۔