کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 125
بیت المال سے نفقہ لیا، جو بھوک مٹانے اور ستر پوشی کی ضرورت سے زیادہ نہ تھا اور آپ مسلمانوں کے لیے وہ عظیم خدمات پیش کر رہے تھے جن کی ادائیگی کے لیے خزانہ ناکافی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب آپ کی وفات کا وقت آیا اور آپ کے پاس فقط یہی زائد مال تھا، اس کو بیت المال میں لوٹانے کا حکم دیا تاکہ اپنے رب سے امن واطمینان کے ساتھ ملیں ، دل اور نفس پاک ہو، تقویٰ سے سوا کوئی بوجھ نہ رہے، دونوں ہاتھ ایمان کے سوا ہر چیز سے خالی ہوں ، اس میں عقلمندوں کے لیے درس و عبرت کا سامان ہے۔[1] اسی طرح آپ نے اپنے اور اپنے بال بچوں کے اخراجات کے لیے جو مال وظیفہ کے طور پر لیا تھا اس کا عوض چکانے کے لیے وصیت فرمائی کہ ان کی مذکورہ زمین بیت المال کو دے دی جائے۔ یہ آپ کا ورع وتقویٰ تھا، آپ یہ چاہتے تھے کہ خلافت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی خالص اللہ کے لیے ہو، اس میں دنیاوی مفاد کا شائبہ نہ ہو۔ آپ مسلسل پندرہ دن تک بیمار رہے۔ جب آپ کی زندگی کا آخری دو شنبہ آیا، ام المومنین فرماتی ہیں : آپ نے مجھ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا: دو شنبہ یعنی سوموار کے دن۔ فرمایا: میری بھی یہی آرزو اللہ تعالیٰ سے ہے۔ پھر پوچھا: کتنے کپڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن دیا گیا تھا؟ ام المومنین نے عرض کیا: تین یمنی سوتی چادروں میں ، نہ تو اس میں قمیص تھی اور نہ عمامہ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میرے اس کپڑے کو دیکھو اس میں زعفران یا مشک لگا ہوا ہے اس کو دھو دو، اور اس کے ساتھ دو کپڑے اور شامل کر لو۔[2] آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر عطا کیا ہے، ہم آپ کو نئے کپڑے میں کفن دیں گے۔ فرمایا: میّت کی بہ نسبت زندہ شخص نئے کپڑوں کا زیادہ مستحق ہے تاکہ اپنی سترپوشی کرے۔ میّت تو پیپ اور بوسیدگی کے حوالے ہے۔[3] آپ نے وصیت فرمائی کہ آپ کو آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس( رضی اللہ عنہا ) غسل دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے آپ کے آخری کلمات یہ تھے: ﴿ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ (یوسف: ۱۰۱) ’’تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں کر دے۔‘‘[4] اللہ تعالیٰ نے آپ کی آرزو پوری کی۔ ۲۲جمادی الآخر ۱۳ہجری دو شنبہ کا دن گذار کرسہ شنبہ کی رات انتقال فرمایا۔ آپ کی وفات سے پورے مدینہ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس غمگین شام سے بڑھ کر کسی دن مدینہ میں زیادہ رونے والے نہ پائے گئے۔
[1] اشہر مشاہیر الاسلام: ۱/۹۴۔ [2] اصحاب الرسول: ۱/۱۰۶۔ [3] التاریخ الاسلامی: محمود شاکر، الخلفاء الراشدون: ۱۰۴۔ [4] الشیخان ابوبکر الصدیق، وعمر بن الخطاب بروایت البلاذری فی انساب الأشراف: تحقیق د/ احسان صدقی العمد :۶۹۔