کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 124
حاضر ہوئی، موت کے عوارض آپ کو لاحق ہو رہے تھے، آپ کا سانس آپ کے سینے میں تھا، اس موقع کی مناسبت سے میں نے یہ شعر پڑھا: لَعَمْرُکَ مَا یُغْنِی الثَّرَائُ عَنِ الْفَتٰی إِذَا حَشْرَجَتْ یَوْمًا وَضَاقَ بِہَا الصَّدْرُ ’’تمھارے دین کی قسم! مال ودولت نوجوان کو مفید نہیں ہو سکتا جبکہ روح اٹک جائے اور سینہ تنگ ہو جائے۔‘‘ آپ نے میری طرف غصہ کی حالت میں دیکھا اور فرمایا: ام المومنین! یوں نہیں بلکہ اللہ کا فرمان سچ ہے: ﴿ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ ﴾ (قٓ:۱۹) ’’اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آپہنچی، یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا۔‘‘ پھر فرمایا: اے عائشہ! تو میرے گھر والوں میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے، میں نے تجھے ایک باغ ہدیہ میں دیا تھا لیکن اس سلسلہ میں میں اپنے جی میں کھٹک محسوس کر رہا ہوں ، لہٰذا تم اسے میراث میں لوٹا دو۔ پھر ام المومنین نے اسے لوٹا دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب سے میں نے خلافت سنبھالی ہے ایک درہم و دینار بھی مسلمانوں کا نہیں کھایا ہے لیکن ہم نے ان کے بھوسی دار غلے کھائے ہیں اور موٹے کپڑے پہنے ہیں اور مسلمانوں کے لیے مال فے میں سے میرے پاس قلیل یا کثیر کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس حبشی غلام اور سینچائی کے اونٹ کے۔ ان کو الگ کر دو اور جب میری وفات ہو جائے تو اسے عمر کے پاس بھیج دینا اور میرا دامن ان سے بری کر دینا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیام بر پہنچا تو آپ رو پڑے اور آپ کے آنسو زمین پر بہنے لگے، آپ فرماتے جاتے: اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے! اپنے بعد کے لوگوں کو تھکا دیا۔ اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے! اپنے بعد کے لوگوں کو تھکا دیا۔ اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے! اپنے بعد کے لوگوں کو تھکا دیا۔[1] ایک اور روایت میں ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا جب وقت آیا تو فرمایا کہ عمر نے مجھے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میں نے بیت المال سے چھ ہزار درہم لیے اور میرا فلاں باغ جو فلاں جگہ ہے اس کے عوض ہے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا گیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، آپ نے یہ چاہا کہ آپ کے بعد کوئی آپ پر انگلی نہ اٹھا سکے۔[2] آپ کے ان مواقف سے سرکاری مال میں آپ کے زہد و ورع کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے مسائل میں مشغولیت اور خلافت کی ذمہ داریوں کے پیش نظر تجارت اور ذرائع آمدنی کو ترک کر دیا۔ مجبوراً
[1] الطبقات لابن سعد: ۳/۱۴۶۔ ۱۴۷، رجالہ ثقات۔ [2] المنتظم لابن الجوزی: ۴/۱۲۷، اصحاب الرسول: ۱/۱۰۵۔