کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 123
کیے ہیں جنہیں دن میں قبول نہیں کرتا۔ جب تک فرض ادا نہ کیا جائے نفل قبول نہیں کرتا۔ حقیقت میں میزان اس کا بھاری ہے جس کا میزانِ عمل قیامت کے دن دنیا میں اتباع حق کی وجہ سے بھاری ہو اور حق ہے کہ وہ میزان بھاری ہوگا جس میں قیامت کے دن حق رکھا جائے اور اس کا میزان ہلکا ہے جس کا میزان قیامت کے دن باطل کی اتباع کی وجہ سے ہلکا پڑ جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر فرمایا تو انھیں ان کے اچھے اعمال کے ساتھ ذکر کیا اور برے اعمال سے تجاوز کیا۔ جب میں نے ان کو یاد کیا تو میں نے کہا: مجھے خوف ہے کہ میں ان لوگوں کا ساتھ نہ پا سکوں اور اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کا ذکر فرمایا اور ان کے برے اعمال کو بیان کیا اور اچھے اعمال کو لوٹا دیا۔ جب میں نے ان کو یاد کیا تو کہا: مجھے امید ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہ ہوں تاکہ بندہ رغبت ورہبت کے ساتھ زندگی گذارے، نہ تو اللہ سے غلط امیدیں باندھے اور نہ اللہ کی رحمت سے نا امید ہو۔ اگر تم میری وصیت کو یاد رکھو تو تیرے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض موت نہ ہو، اور تم موت کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔[1] (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ص:۴۹۵ از ڈاکٹر محمد الصلابی) ۳۔ موت کا وقت قریب آگیا: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موت کا آغاز یوں ہوا کہ آپ نے غسل فرمایا، یہ انتہائی سرد دن تھا۔ آپ پر بخار طاری ہو گیا اور پندرہ دن تک بخار میں مبتلا رہے، نماز کے لیے نہیں نکل سکتے تھے۔ آپ کے حکم سے عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے، صحابہ برابر آپ کی عیادت کے لیے آتے رہتے اور عثمان رضی اللہ عنہ برابر آپ کے ساتھ لگے رہتے۔[2] جب آپ کی بیماری بڑھ گئی، لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ کے لیے طبیب کو نہ بلائیں ؟ آپ نے فرمایا: طبیب نے مجھے دیکھا ہے اور اس نے کہا ہے کہ یقینا میں جو چاہتا ہوں کر گزرتا ہوں ۔[3] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیکھو، جب سے میں خلافت میں داخل ہوا ہوں میرے مال میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کو میرے بعد کے خلیفہ کے حوالے کر دو۔ جب ہم نے حساب کیا تو ایک نوبی غلام تھا جو آپ کے بچوں کو اٹھایا کرتا تھاا ور دوسرا ایک اونٹ تھا جو آپ کے باغ کو سیراب کرتا تھا۔ ہم نے ان دونوں کو عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، یہ دیکھ کر عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہنے لگے: اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، انھوں نے اپنے بعد والوں کو بری طرح تھکا دیا۔[4] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب ابوبکر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے، میں آپ کی خدمت میں
[1] صفۃ الصفوۃ: ۱/۲۶۴۔۲۶۵۔ [2] اصحاب الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم : محمد المصری ۱/۱۰۴۔ [3] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ: ۳۳۔ [4] صفۃ الصفوۃ: ۱/۲۶۵۔