کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 122
پھر آپ نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے سامنے بھی یہی بات رکھی۔
اسید نے عرض کیا: میں انھیں آپ کے بعد سب سے بہتر جانتا ہوں ، اللہ کی رضا مندی کی چیزوں سے خوش ہوتے ہیں اور اس کی ناراضی کی چیزوں پر ناراض ہوتے ہیں ۔ ان کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے۔ ان سے بڑھ کر خلافت کی طاقت کوئی نہیں رکھتا۔
اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور دیگر مختلف انصار ومہاجرین سے مشورہ کیا۔ سب نے تقریباً عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک ہی رائے دی۔ صرف طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی سختی سے خوف کا اظہار کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: عمر رضی اللہ عنہ کے استخلاف سے متعلق اللہ جب آپ سے پوچھے گا تو آپ کیا جواب دیں گے جبکہ آپ کو ان کی سختی معلوم ہے؟
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بٹھاؤ، کیا مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو؟ وہ ناکام ونامراد ہوا جو ظلم لے کر جائے۔ میں اللہ سے عرض کروں گا: میں نے تیرے بندوں میں سب سے بہتر کو خلیفہ مقرر کیا ہے۔[1]
جن لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی سختی کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائی، ان سے فرمایا: ان کی سختی اس وجہ سے ہے کہ وہ مجھے نرم دیکھ رہے ہیں جب خلافت کی ذمہ داری ان کے سر پر پڑے گی تو بہت سی سختیاں ان کی ختم ہو جائیں گی۔[2]
عمر رضی اللہ عنہ امت کے لیے مضبوط بند تھے جس نے امت کو فتنوں کی موجوں سے محفوظ رکھا۔[3]
۲… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے منصوبہ سے آگاہ کیا۔ چنانچہ جب عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے انھیں اپنے عزائم کی خبر دی، انھوں نے قبول کرنے سے انکار کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں تلوار کی دھمکی سنائی، تو پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔[4]
۳… عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وصیت:
ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلوت میں ہوئے اور ان کو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتے ہوئے مختلف وصیتیں فرمائیں ۔ امت کے لیے پوری کوشش ومحنت کے بعد آپ نے یہ چاہا کہ جب رب العالمین سے ملیں تو ہر ذمہ داری سے بری ہوں ۔[5] چنانچہ وصیت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: اے عمر! اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو، اللہ تعالیٰ نے دن میں کچھ اعمال مقرر کیے ہیں جنہیں رات میں قبول نہیں کرتا اور رات میں کچھ اعمال مقرر
[1] الکامل لابن الاثیر: ۲/۷۹، التاریخ الاسلامی: محمود شاکر ۱۰۱۔
[2] الکامل لابن الاثیر: ۲/۷۹۔
[3] ابوبکر رجل الدولۃ: ۱۰۰۔
[4] مآثر الإنافۃ للقلقشندی: ۱/۴۹۔
[5] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ: ۲۷۲۔