کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 120
انھیں رومیوں پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا اور مرج الصفر کا راستہ لیا۔ ادھر رومی کمانڈر ماہان اپنی فوج لے کر اترا اور اسلامی فوج سے قریب ہوتا رہا جو بحر مردار کے جنوب کی طرف متوجہ ہو کر بحیرۂ طبریہ کے مشرقی کنارے مرج الصفرمیں پہنچ چکی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ کر کے شکست دے دی۔ ماہان کو سعید بن خالد رضی اللہ عنہ ایک فوجی دستے کے ساتھ ملے، اس نے سعید سمیت سب کو قتل کر دیا۔ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کو جب بیٹے کے قتل کی خبر ملی تو اپنے ساتھیوں کے ایک دستہ کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے اور عکرمہ رضی اللہ عنہ بقیہ فوج کو لے کر شام کی سرحد تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔[1] سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سپہ سالاروں کو متعین کرنا اور فوج کو روانہ کرنا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوج کو شام بھیجنے کا عزم کر لیا، لوگوں کو جہاد کی دعوت دی اور شام کو فتح کرنے کے لیے چار افواج تیار کیں : ٭ لشکر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما :… یہ پہلا لشکر تھا جو شام کی طرف آگے بڑھا۔ ٭ لشکر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ :… پہلے لشکر کی روانگی کے تین دن بعد شرحبیل رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔ ٭ لشکر ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ :… اس کی تعداد تین سے چار ہزار تھی اس کی منزل حمص تھی۔ ٭ لشکر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :… امیر المؤمنین نے اس لشکر کو فلسطین روانہ کیا۔ [تفصیل ملاحظہ ہو: سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ص: ۴۴۱ تا ۴۵۰۔ از ڈاکٹر محمد الصلابی] خالد رضی اللہ عنہ کو شام کی طرف روانہ کرنا اور معرکہ اجنادین ویرموک: ۱۔ معرکہ اجنادین:… خالد رضی اللہ عنہ شام پہنچے، بصریٰ فتح کیا، قائدین اسلام؛ ابوعبیدہ بن جراح، شرحبیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم سے ملے، عسکری صورت حال کا جائزہ لیا، دقیق تفصیلات پر مطلع ہوئے۔ اس طرح اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار ہو گئی۔ خالد رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مناسب وقت پر پہنچے اور گھمسان کی جنگ شروع ہوئی۔ خالد اور عمرو رضی اللہ عنہما کی عسکری مہارت کا اس فیصلہ کن فتح میں کافی دخل رہا۔ چنانچہ خطرات سے کھیلنے والی فوج کو مقرر کیا گیا، جو دشمن کی صفوں کو چیرتی ہوئی رومی جرنیل تک پہنچ گئی اور اس کا کام تمام کر دیا۔ جرنیل کے قتل ہوتے ہی رومی فوج ہمت ہار گئی اور مختلف سمتوں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔[2] ۲۔ معرکہ یرموک:… اس معرکہ میں خالد رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں کی تعداد چالیس ہزار اور بعض روایات کے مطابق پینتالیس (۴۵) ہزار۔دوسری طرف دشمن کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار تھی جس کی قیادت تھیوڈر کر رہا تھا۔
[1] ابوبکر الصدیق: نزار الحدیثی، د۔ خالد الجنابی ۵۸۔ [2] ابوبکر رضی اللّٰه عنہ : نزار الحدیثی ۷۰۔