کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 119
بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ ان کے بعد اسلامی لشکر کی قیادت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سنبھالی اور ایک کامیاب فوجی چال چلی جس نے اس علاقہ کے لوگوں کے دلوں میں بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معرکہ کے ذریعہ سے شام میں ظالم رومی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے پیش قدمی کی اور اس کے لیے اصول و بنیاد وضع فرمائی اور عربوں کے دل سے روم کی ہیبت ختم کی اور مسلمانوں کو اس بابرکت مقصد کی تکمیل کے لیے مادی اور معنوی تیاری پر ابھارا بلکہ غزوہ تبوک میں خود قیادت فرمائی اور روم کے ساتھ میدانی جھڑپ کے ذریعہ سے مسلمانوں نے رومی فوج کی حقیقت کو جانا، ان کے جنگی اسلوب کی معرفت حاصل کی اور ان غزوات کے ذریعہ سے باشندگان شام کو اسلام کے اصول و مبادی اور اہداف کو سمجھنے کا موقع ملا، جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ مسلمان ہوئے پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اس منہج پر قائم رہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرمایا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لشکر اسامہ کو روانہ کرنے پر مصر رہے اور جب ذوالقصہ کے مقام پر آپ نے مختلف فوجی دستے اور ان کے قائدین کو مقرر کیا تو خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک دستہ شام کی حدود کی طرف روانہ کیا اور انھیں حکم فرمایا کہ وہ تیماء[1] کے مقام پر مسلمانوں کے لیے پشت پناہ رہیں ۔ وہاں سے بغیر ان کے حکم کے ہٹیں نہیں اور صرف ان سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ میں آئیں ۔ اس کی خبر ہرقل کو پہنچی۔ اس نے روم کے ہم نوا عرب قبائل بہراء، سلیح، کلب، لخم، جذام اور غسان کی فوج تیار کی۔ اس کی خبر ملتے ہی خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے ان کا رخ کیا اور ان کے مقام پر جا پہنچے، وہ سب خوف زدہ ہو کر منتشر ہو گئے۔ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع بھیجی پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں بذریعہ خط اقدام کرنے کا حکم فرمایا[2] اور حکم دیا کہ روم کی شیرازہ بندی سے پہلے ہی ان پر ٹوٹ پڑو اور نصیحت فرمائی کہ واپسی کی راہ محفوظ رکھنا اور دشمن کی سر زمین میں بہت زیادہ نہ گھس جانا اور خلیفہ نے جوابی خط میں تحریر فرمایا: آگے بڑھو، رکو نہیں اور اللہ سے مدد طلب کرو۔ خالد رضی اللہ عنہ بڑھے اور ’’بحر مردار‘‘ کے راستہ قسطل تک پہنچ گئے اور بحرمردار کے مشرقی ساحل پر رومی فوج کو شکست دے دی اور پھر آگے بڑھے۔ اس پر رومی آپے سے باہر ہو گئے اور تیماء سے زیادہ فوج اکٹھی کر لی۔ خالد رضی اللہ عنہ نے ان کا اتحاد اور جمع ہونا دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کیا اور صورت حال بیان کرتے ہوئے مدد طلب کی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں متبادل فوج روانہ کی[3] اور پھر ولید ابن عقبہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دوسری فوج روانہ کی جب یہ سب افواج خالد بن سعید کے پاس پہنچ گئیں تو
[1] تیماء: شام کے اطراف میں شام اور وادی القریٰ کے درمیان واقع ہے۔ [2] إتمام الوفاء فی سیرۃ الخلفاء: محمد الخضری: ۵۴۔ [3] عکرمہ رضی اللہ عنہ کندہ وحضر موت سے یمن ومکہ کے راستہ واپس ہوئے، جب آپ مدینہ پہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو حکم فرمایا کہ خالد بن سعید کی مدد کے لیے روانہ ہو جاؤ۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو جس نے آپ کے ساتھ حروب ارتداد میں شرکت کی تھی چھٹی دے دی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے بدلہ دوسری فوج تیار کی اور انھیں حکم دیا کہ عکرمہ کے پرچم تلے شام کے لیے روانہ ہو جائیں ۔