کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 116
اس طرح قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کو سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کیا۔ صعصعہ بن صوحان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سب سے پہلے جس نے قرآن کو دو دفتوں (گتوں ) کے مابین جمع کیا اور کلالہ کی تشریح کی وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔[1] علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، انھوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو دفتوں کے درمیان جمع فرمایا۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس عظیم کام کے لیے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا کیونکہ آپ نے اس کام کے لیے اساسی صلاحیتوں کو ان کے اندر پایا اور وہ یہ ہیں : ٭ آپ نوجوان تھے، اس وقت ان کی عمر صرف اکیس سال تھی، اس صورت میں آپ اس کام کے لیے زیادہ موزوں تھے۔ ٭ آپ اس کی اہلیت زیادہ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل رسا عطا فرمائی تھی۔ اس لیے آپ اس کام کو بدرجہ اتم کر سکتے تھے۔ اللہ نے آپ کے لیے خیر کا راستہ آسان کر دیا تھا۔ ٭ آپ ثقہ اور قابل اعتماد تھے، آپ پر کوئی اتہام اور عیب نہیں تھا۔ اس لیے آپ کا عمل سب کے نزدیک قابل قبول تھا اور سب کے دل مطمئن اور نفوس راغب تھے۔ ٭ آپ کاتب وحی تھے، لہٰذا اس سلسلہ میں آپ کو تجربہ تھا، عملی طور پر اس کو کر چکے تھے، آپ اس کام کے لیے کوئی نئے نہیں تھے۔[3] انہی اوصاف کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کے لیے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ اس کے لیے انتہائی موزوں ومناسب اور تجربہ کار تھے۔ ٭ مزید برآں آپ ان چار افراد میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کو مکمل حفظ کر رکھا تھا چنانچہ قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کن لوگوں نے قرآن کو مکمل حفظ کیا تھا؟ فرمایا: چار افراد تھے اور وہ سب انصار میں سے تھے: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید رضی اللہ عنہم ۔[4] سیّدنا زید رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ تھا کہ کوئی نوشتہ اس وقت قرآن میں شامل
[1] ابن ابی شیبۃ: ۷/۱۹۶۔کلالہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے میں جس کے نہ والدین ہوں اور نہ اولاد۔ آپ فرماتے ہیں کلالہ کے سلسلہ میں میری رایک رائے ہے اگر صحیح ہے تو من جانب اللہ ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ کلالہ: والد و اولاد کے ماسوا یعنی بھائی بہن ہیں ۔ دیکھیے: موسوعۃ فقہ ابی بکر الصدیق: ۳۶۔ [2] ابن ابی شیبۃ: ۷/۱۹۶۔ [3] التفوُّق والنَّجابۃ علی نہج الصحابۃ: حمد العجمی ۷۳۔ [4] سیر أعلام النبلاء: ۲/۴۳۱۔