کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 115
(اور کبھی کوئی آیت نازل ہوتی اور کبھی کوئی، اور جبریل علیہ السلام آپ کو بتاتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں کے بعد رکھا جائے) اس لیے جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ نزول قرآن کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو الہام کیا اور انھیں شرح صدر عطا کر دیا۔ سیرۃ وحیاۃ الصدیق: ۱۲۰۔ اور برابر اس سلسلہ میں اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اس چیز کا شرح صدر کر دیا جس کا شرح صدر عمر کو کیا تھا اور میری بھی وہی رائے ہے جو عمر کی ہے۔ تم عقلمند نوجوان ہو، تم پر ہم کوئی اتہام نہیں پاتے، اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔ لہٰذا تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔‘‘ زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’واللہ! اگر مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ جمع قرآن کے مقابلہ میں مجھ پر زیادہ مشکل نہ ہوتا۔ پھر میں نے قرآن کو کھجور کی شاخوں ، پتھر کی سلوں ، لوگوں کے سینوں ، جھلیوں اور ہڈیوں سے تلاش کر کے جمع کیا۔ یہاں تک کہ سورئہ توبہ کی آخری آیات مجھے صرف ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ (التوبۃ: ۱۲۸) سے لے کر سورت کے آخر تک۔ اور یہ مصحف ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا اور جب آپ کی وفات ہو گئی تو عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا اور پھر آپ کی وفات کے بعد حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے پاس رہا۔‘‘[1] اس حدیث کی تعلیق میں امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث میں واضح بیان موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کو دو دفتوں (گتوں ) کے درمیان بالکل اسی طرح جمع کر دیا جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا تھا، نہ اس میں اضافہ کیا اور نہ اس میں کسی طرح کی کمی کی۔ اور جس چیز نے انھیں قرآن کو جمع کرنے پر ابھارا وہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ قرآن کھجور کی شاخوں ، ہڈیوں اور لوگوں کے سینوں میں متفرق تھا، جس کی وجہ سے حفاظ قرآن کے نہ رہنے کی صورت میں اس کے بعض حصوں کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ خلیفہ رسول کے پاس پہنچے اور ان سے قرآن جمع کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپ نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح تمام صحابہ کے اتفاق سے قرآن ایک جگہ جمع کرنے کا حکم فرمایا، پھر قرآن کو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اسی طرح لکھا۔ اس میں ذرا بھی تقدیم و تاخیر نہ کی اور نہ اپنی طرف سے اس کی ترتیب رکھی بلکہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اسی طرح مرتب کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو جس طرح قرآن نازل ہوتا اسی ترتیب سے سکھاتے جس ترتیب سے آج ہمارے مصاحف میں موجود ہے اور یہ ترتیب جبریل امین علیہ السلام کی توقیف سے تھی۔ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد لکھا جائے۔[2]
[1] البخاری: ۴۹۸۶۔ [2] شرح السنۃ للبغوی: ۴/۵۲۲۔