کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 113
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مسیلمہ کا خط اور اس کا جواب: ہجرت کے دسویں سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو اس خبیث کو جرأت ہوئی اور اس نے اس زعم میں مبتلا ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط تحریر کیا کہ اس کو آپ کے ساتھ نبوت میں شرکت حاصل ہے۔ اس خط کو عمرو بن جارود حنفی نے لکھا اور عبادہ بن حارث حنفی معروف بہ ابن نواحہ کے ہاتھ ارسال کیا۔ اس خط کا متن یہ ہے: ’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ اما بعد! نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی لیکن قریش انصاف نہیں کرتے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خط کا جواب دیا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ جواب تحریر کیا جس کا متن یہ ہے: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد نبی کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام۔ اما بعد! زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، اس کا وارث بناتا ہے، اور انجام کار متقیوں کے لیے ہے، جو ہدایت کی پیروی کرے اس کو سلام۔‘‘[2] مسیلمہ کذاب نے اپنا خط دو آدمیوں کے ذریعہ سے ارسال کیا تھا جن میں سے ایک ابن نواحہ مذکور تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خط سے مطلع ہوئے تو ان دونوں سے فرمایا: تم دونوں کیا کہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سفیروں کو قتل کرنا صحیح ہوتا تو میں تمھاری گردن اڑا دیتا۔[3] مسیلمہ کذاب کا قتل: مسلمان مرتدین سے قتال کرتے ہوئے مسیلمہ کذاب تک پہنچ گئے، وہ ایک دیوار کے شگاف کے درمیان کھڑا ہوا تھا، جیسے خاکستری اونٹ ہو۔ وہ بچاؤ اور سہارے کی تلاش میں تھا، غصہ سے پاگل ہو چکا تھا۔ جب اس کا شیطان اس پر سوار ہوتا تو اس کے منہ سے جھاگ نکلتی، اسی حالت میں جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ جنہوں نے غزوۂ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، آگے بڑھے اور اپنا حربہ پھینک کر مارا، وہ مسیلمہ کو جا لگا اور دوسری طرف سے پار ہو گیا۔ پھر جلدی سے ابودجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے، اس پر تلوار چلائی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ قصر سے ایک عورت پکار اٹھی: ’’حسن وجمال کے پیکر امیر کو کالے کلوٹے غلام نے قتل کر دیا۔‘‘ باغ اور معرکہ میں قتل ہونے والے مرتدین کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی، اور ایک روایت میں اکیس ہزار بھی وارد ہے، اور جام شہادت نوش کرنے والے مسلمانوں کی تعداد چھ سو تھی، اور ایک روایت میں پانچ سو وارد
[1] تاریخ الطبری: ۳/۳۸۶۔ [2] تاریخ الطبری: ۳/۳۸۷۔ [3] تاریخ الطبری: ۳/۳۸۶۔