کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 111
((نعم عبداللّٰہ واخو العشیرۃ خالد بن الولید، سیف من سیوف اللّٰه سَلَّہ اللّٰه علی الکفار والمنافقین۔))[1] ’’اللہ کا بہترین بندہ اور خاندان کا بہترین فرد خالد بن ولید ہے۔ یہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے کفار ومنافقین پر مسلط کر دیا ہے۔‘‘ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ذوالقصہ سے روانہ ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو رخصت کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ دوسرے امراء کے ساتھ خیبر کی طرف سے آکر ان سے ملیں گے اور انہیں حکم دیا کہ وہ اوّلاً طلیحہ اسدی کی طرف روانہ ہوں ، پھر وہاں سے فارغ ہو کر بنو تمیم کی خبر لیں ۔ طلیحہ بنو اسد اور بنوغطفان کے ساتھ تھا اور ان کے ساتھ بنو عبس اور بنوذبیان بھی شامل ہو گئے تھے۔ اس نے بنو جدیلہ اور بنوطے میں سے غوث سے مدد طلب کی، انہوں نے لوگوں کو بھیجا تاکہ جلدی ان سے جا ملیں اور ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے قبل روانہ کیا کہ وہ اپنے قبیلہ بنو طے کے پاس جائیں اور انہیں طلیحہ سے ملنے سے روکیں ورنہ ان کا انجام برا ہوگا۔ عدی رضی اللہ عنہ بنو طے کے پاس گئے، انہیں دعوت دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لو[2] اور اللہ کی طرف رجوع کرو۔ انہوں نے جواباً کہا: ہم ابو فصیل[3] (ابوبکر) سے بیعت نہیں کریں گے۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فوج تم پر پہنچے گی اور تم سے برابر قتال کرے گی یہاں تک کہ تم جان لو گے کہ وہ ابوفحل[4] اکبر ہیں ۔ عدی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ برابر لگے رہے یہاں تک کہ وہ نرم پڑ گئے اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوج لے کر پہنچ گئے۔ آپ کے ساتھ جو انصار تھے ان کے ہراول دستہ پر ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تھے۔ ان سے آگے ثابت بن اقرم اور عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہما کو دشمن کی نقل وحرکت کا پتہ چلانے کے لیے روانہ کیا، ان دونوں کو طلیحہ کا بھتیجا حبال مل گیا اس کو انہوں نے قتل کر دیا۔ طلیحہ کو اس کی خبر ملی، وہ اور اس کا بھائی سلمہ دونوں نکلے، ثابت اور عکاشہ رضی اللہ عنہما سے مقابلہ آرائی ہوئی، طلیحہ نے عکاشہ کو اور سلمہ نے ثابت کو قتل کر دیا۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پہنچے تو دونوں کو ڈھیر پایا۔ مسلمانوں پر یہ بہت شاق گذرا۔ یہاں سے خالد رضی اللہ عنہ بنو طے کی طرف مڑ گئے۔ وہاں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے عرض کیا: آپ مجھے تین دن کی مہلت دیں ۔ انہوں نے مجھ سے مہلت مانگی ہے تاکہ ان کے جو لوگ طلیحہ سے جا ملے ہیں انہیں یہ واپس بلا لیں ، انہیں اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کا ساتھ دیں تو کہیں طلیحہ ان کے لوگوں کو قتل نہ کر
[1] مسند احمد: ۱/۱۷۳، شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ [2] ترتیب وتہذیب کتاب البدایۃ والنہایۃ: خلافۃ ابی بکر: د/ محمد صامل السَّلمی: ۱۰۱۔ [3] فصیل: یعنی اونٹنی کابچہ۔ [4] فحل: یعنی نوجوان اونٹ، سانڈ۔