کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 109
سے ان پر خوف طاری ہوا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔[1]
جس رات اسود عنسی قتل ہوا اسی رات آسمان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی اور آپ نے لوگوں کو بشارت سناتے ہوئے فرمایا: آج رات عنسی قتل کر دیا گیا، بابرکت گھرانے کے ایک بابرکت شخص نے قتل کیا ہے۔ دریافت کیا گیا: وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: فیروز، فیروز کامیاب ہو گیا۔[2]
اسود عنسی کے قتل کا تذکرہ ڈاکٹر صلاح الخالدی نے اپنی کتاب ’’صورمن جہاد الصحابہ‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔[3]
۲۔ طلیحہ اسدی کے فتنہ کا خاتمہ:
طلیحہ اسدی ان مدعیان نبوت میں سے تیسرا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نمودار ہوا۔ اس کا نام طلیحہ بن خویلد بن نوفل بن نضلہ الاسدی ہے۔ عام الوفود ۹ہجری میں اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور احسان جتاتے ہوئے کہا: ہم آپ کی خدمت میں خود حاضر ہوئے۔ ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں حالانکہ آپ نے ہماری طرف کسی کو نہیں بھیجا اور ہم اپنے پیچھے والوں کے لیے کافی ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا:
﴿ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا ۖ قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم ۖ بَلِ اللَّـهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ (الحجرات: ۱۷)
’’اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں ، آپ کہہ دیجیے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ دراصل اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی، اگر تم راست گو ہو۔‘‘
جب یہ لوگ واپس ہوئے طلیحہ ارتداد کا شکار ہوا اور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا[4] اور سمیراء میں اپنا مرکز بنایا، عوام اس کے مرید ہو گئے اور اس کا معاملہ ظاہر ہو گیا۔ لوگوں کی ضلالت کا پہلا سبب یہ ہوا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پانی ختم ہو گیا، لوگوں کو شدید پیاس لگی، اس نے لوگوں سے کہا: تم میرے گھوڑے ’’اعلال‘‘ پر سوار ہو کر چند میل جاؤ وہاں تمہیں پانی ملے گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہیں پانی مل گیا، اس وجہ سے دیہاتی اس فتنہ کا شکار ہو گئے۔[5]
[1] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۳۔
[2] تاریخ الطبری: ۴/۵۵۔
[3] صورمن جہاد الصحابۃ للخالدی: ۲۱۱۔ ۲۲۸۔
[4] اسدالغابۃ: ۳/۹۵۔
[5] حروب الردۃ: محمد احمد باشمیل ۷۹۔