کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 108
ہوگا کیونکہ معاذ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملا تھا جس میں آپ نے ان کو حکم دیا تھا کہ اسود عنسی سے مقابلہ کے لیے مجاہدین بھیجیں تاکہ اس کا خاتمہ ہو سکے۔[1] اسی طرح ابوموسیٰ اشعری اور طاہر بن ابوہالہ رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملا جس میں آپ نے انہیں اسود عنسی سے مقابلہ کا حکم دیا تھا، خواہ باقاعدہ جنگ کے ذریعہ سے یا اچانک قتل کے ذریعہ سے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کا بڑا گہرا اثر ہوا، آپ نے جن کو خطوط بھیجے وہ آپ کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد متحد ہو کر اسلام پر ڈٹ گئے، نہ تو یہ شکوک وشبہات کا شکار ہوئے اور نہ ارتداد کو اختیار کیا چنانچہ حمیر اور ہمدان کے زعماء نے ابنائے فارس کو خطوط بھیجے اور ہر طرح کی مدد کا ان سے وعدہ کیا۔ اسی طرح نجران کے لوگ اسود عنسی کی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہو گئے، اس وقت اسود عنسی کو یقین ہو گیا کہ اب اس کا انجام ہلاکت ہے۔[3] ہمدان وحمیر اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر یمنی سرداروں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کا بھی قوی احتمال ہے کہ ابنائے فارس اور فروہ بن مسیک کے مابین خط کتابت رہی ہو، کیونکہ اسود عنسی کے قتل میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔[4] لیکن اسود عنسی پر سب سے پہلے اعتراض کرنے والے عامر بن شہرہمدانی تھے۔ اس طرح تمام اسلامی قوتیں یمن میں اسود عنسی کو ختم کرنے کے لیے اکٹھی ہو گئیں اور بظاہر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ تمام اس بات پر متفق تھے کہ اسود عنسی کو کسی طرح قتل کر دیا جائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اس کا قتل ہو گیا تو اس کے ماننے والے بکھر جائیں گے اور ان کی قوت باقی نہ رہے گی پھر ایسی صورت میں ان سے نمٹنا آسان ہوگا۔ اس لیے اس منصوبہ پر اتفاق ہوا کہ اس وقت تک کوئی کارروائی نہ کی جائے جب تک اندرونی کارروائی مکمل نہ ہو جائے۔ چنانچہ ابنائے فارس فیروز دیلمی اور داذویہ، اسود عنسی کے قائد الجیش ’’قیس بن مکشوح مرادی‘‘ کے ساتھ اسود عنسی کے قتل پر اتفاق کرنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ قیس بن مکشوح المرادی کا اسود کے ساتھ اختلاف تھا اور اس کو اپنے بارے میں اسود سے خطرہ تھا۔[5] ان لوگوں نے اپنے ساتھ اسود کی بیوی ’’آزاد فارسیہ‘‘ کو شامل کیا جو پہلے شہر بن باذان کی بیوی تھی اور فیروز فارسی کی چچا زاد بہن تھی۔ کذابِ یمن اسود عنسی نے اس کے شوہر کو قتل کر کے اس کو غصب کر لیا تھا۔ وہ پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ جاہلی درندوں کے پنجے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور ابنائے فارس کے ساتھ مل کر اس ظالم کے قتل کا پروگرام مرتب کیا،[6] اور بستر پر ہی اس کے قتل کا راستہ ہموار کیا۔[7] اور جب اسود قتل کر دیا گیا تو اس کے سر کو اس کے ساتھیوں کے درمیان ڈال دیا گیا جس
[1] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۲۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۵۱۔ [3] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۲۔ [4] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۲۔ [5] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۲۔ ۲۷۳۔ [6] حرکۃ الردۃ للعتوم: ۳۰۹۔ [7] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۳۔