کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 107
’’نجران‘‘ سے نکال باہر کر دیا پھر اس کو صنعاء پر قبضہ کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی اور چھ سو یا سات سو شہسواروں کو لے کر اس کی طرف روانہ ہوا، ان میں سے اکثر بنو حارث اور عنس کے لوگ تھے۔[1]
اس وقت صنعاء کے عامل شہر بن باذان الفارسی تھے، جو اپنے والد کے ساتھ صنعاء سے باہر ’’شعوب‘‘ کے علاقہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ دونوں کے درمیان سخت لڑائی ہوئی جس کے نتیجہ میں شہر بن باذان الفارسی شہید ہو گئے اور اسود عنسی صنعاء پر غالب آگیا اور اپنے ظہور کے صرف پچّیس دن بعد قصر غمدان میں نزول کیا۔[2] اسلام پر قائم رہنے والوں کو سزا دینے کے سلسلہ میں انتہائی بھیانک مؤقف اختیار کیا، نعمان نامی ایک مسلمان کو پکڑا اور ان کے ایک ایک عضو کو کاٹ ڈالا۔[3] اسی لیے جو مسلمان اس کے مقبوضہ علاقوں میں آباد تھے انہوں نے تقیہ اختیار کیا۔[4]
جو مسلمان اس کے مقبوضہ علاقہ سے باہر تھے انہوں نے اپنی جمعیت اکٹھی کرنے اور اپنی صفوں کو نئے سرے سے منظم کرنے کی کوشش کی چنانچہ فروہ بن مُسَیک المرادی ’’احسیہ‘‘[5] مقام پر پناہ گزیں ہوئے اور دیگر مسلمان اس کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس نے اسود عنسی کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ خط مطلع کیا۔ یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع بھیجی اور ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما حضرموت میں سکاسک اور سکون کے پڑوس میں جمع ہو گئے۔[6] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کے نام، اسود کی ارتدادی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے خطوط ارسال کیے اور انہیں حکم دیا کہ کسی طرح اس کا خاتمہ کریں خواہ قتال کے ذریعہ سے ہو یا دھوکہ سے قتل کریں اور اپنے خطوط اور پیغام بروں کو حمیر وہمدان کے بعض زعماء کی طرف ارسال فرمایا کہ وہ آپس میں متحد ومتفق ہو کر اسود عنسی کے خلاف مجاہدین کا ساتھ دیں ۔[7] چنانچہ آپ نے وبربن یخنس رضی اللہ عنہ کو فیروز دیلمی، جُشَیش دیلمی اور داذویہ اصطخری کے پاس بھیجا اور جریر بجلی رضی اللہ عنہ کو ذوالکلاع حمیری اور ذوظلیم حمیری کے پاس روانہ کیا اور اقرع بن عبداللہ حمیری رضی اللہ عنہ کو ذو زود ہمدانی اور ذومران ہمدانی کے پاس ارسال فرمایا۔
اسی طرح آپ نے اہل نجران اور وہاں آباد لوگوں کو خطوط ارسال کیے۔[8] آپ نے حارث بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ کو اپنی وفات سے قبل یمن روانہ فرمایا اور ان کو یمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی۔[9] مراجع سے یہ سراغ نہ مل سکا کہ ان کو کس کے پاس بھیجا تھا لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا
[1] تاریخ الردۃ للکلاعی: ۱۵۱۔۱۵۲۔
[2] البدء والتاریخ: ۵/۲۲۹۔
[3] ابن سعد فی الطبقات: ۵/۵۳۵۔
[4] الیمن فی صدر الاسلام للشجاع: ۲۵۸۔
[5] یمن میں ایک مقام کا نام ہے۔ دیکھیے، المعجم: یاقوت الحموی ۱/۱۱۲۔
[6] تاریخ الطبری: ۴؍۴۹، ۵۰۔
[7] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۱۔
[8] تاریخ الطبری: ۴/۵۲۔
[9] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۷۱۔