کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 106
۶: لشکر خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ ، حدود شام کی طرف۔ ۷: لشکر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بحرین کی طرف۔ ۸: لشکر حذیفہ بن محصن غطفانی رضی اللہ عنہ ، عمان کی طرف۔ ۹: لشکر عرفجہ بن ہرثمہ، مہرہ کی طرف۔ ۱۰: لشکر مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ ، یمن کی طرف (صنعاء پھر حضرموت) ۱۱: لشکر سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ ، تہامۂ یمن کی طرف۔[1] اسود عنسی اور طلیحہ اسدی کا خاتمہ ۱۔ اسود عنسی کا خاتمہ: حجۃ الوداع کے بعد جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی اطلاع ملی، اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور بعض روایات میں ہے کہ جس طرح مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو ’’رحمن الیمامہ‘‘ کہلاتا تھا اسی طرح اسود اپنے آپ کو ’’رحمن الیمن‘‘ کہلانے لگا۔[2] یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار کے ساتھ اپنی نبوت کا اعلان کرتا اور یہ اس زعم میں مبتلا تھا کہ اس کے پاس دو فرشتے وحی لے کر آتے ہیں جن میں سے ایک کا نام سحیق اور دوسرے کا نام شقیق یا شریق ہے۔[3] شروع میں اپنی دعوت کو مخفی رکھا، اپنے مناسب لوگوں کو خفیہ طور سے اپنے پاس جمع کرتا رہا، پھر اچانک اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔[4] سب سے پہلے اس کی دعوت کو قبول کرنے والے اسی کے قبیلہ ’’عنس‘‘ کے نوجوان تھے۔[5] پھر اس نے قبیلہ ’’مذحج‘‘ کے زعماء سے خط کتابت کی تو اس قبیلہ کی عوام اس کے ساتھ ہو گئی۔[6] اور اسی طرح قیادت وسیادت کے بھوکے بعض زعماء بھی اس کے پھندے میں آگئے۔ اس نے لوگوں کے مابین قبائلی عصبیت بھڑکائی کیونکہ اس کا تعلق قبیلہ ’’عنس‘‘ سے تھا جو قبیلہ ’’مذحج‘‘ کی ایک شاخ تھی۔ اسی طرح اس نے اہل نجران میں سے بنو حارث بن کعب سے خط کتابت کی جو اس وقت مسلمان تھے۔ ان سے اس نے ان کے یہاں آنے کا مطالبہ کیا پھر وہاں پہنچ بھی گیا، لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کر لی کیونکہ انہوں نے برضا ورغبت اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اسی طرح زبید، اَود، مَسلیہ اور حکم بن سعد عشیرۃ کے کچھ لوگ اس کے تابع ہو گئے۔ کچھ دن نجران میں رہا، اس وقت اس کی قوت مضبوط ہو گئی جب عمرو بن معدیکرب الزبیدی اور قیس بن مکشوح المرادی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس نے فروہ بن مسیک رضی اللہ عنہ کو ’’مراد‘‘ سے اور عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو
[1] تاریخ الطبری: ۴/۶۸، دراسات فی عصر النبوۃ: ۳۲۱۔ [2] الیمن فی صدر الاسلام للشجاع ۲۵۶۔ [3] البدء والتاریخ: ۵/۱۵۴۔ [4] الیمن فی صدر الاسلام: ۲۵۷۔ [5] فتوح البلدان للبلاذری: ۱/۱۲۵۔ [6] تاریخ الردۃ للکلاعی: ۱۵۱۔۱۵۲۔