کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 105
حصول میں کامیابی حاصل ہو مثلاً لشکر اسامہ کے لوٹنے تک موقع مل جائے۔ چنانچہ آپ نے یمن وغیرہ میں بھی طریقہ ان لوگوں کو خطوط بھیجے، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط ارسال کیے تھے۔[1] تاکہ اپنی پوری کوشش اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے صرف کریں اور ثابت قدم رہنے والوں سے اس بات کا مطالبہ کریں کہ وہ مقررہ مقامات پر جمع ہو جائیں اور خلیفہ کے حکم کا انتظار کریں ۔ یہ ترتیب آئندہ فوجی منصوبے کا آغاز تھی۔[2] ۲۔ منظم فوج کو روانہ کرنا: جب لشکر اسامہ دو ماہ اور بقول بعض چالیس دن کے بعد مدینہ واپس ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو لے کر ذوالقصہ پر چڑھائی کی، جو مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر واقع ہے تاکہ مرتدین اور متمردین سے قتال کریں ۔ صحابہ نے آپ سے یہ پیشکش کی کہ آپ کسی دوسرے کو فوج کی قیادت سونپ دیں اور خود مدینہ واپس ہو کر امور خلافت کو سنبھالیں اور اس مطالبہ پر زور دیا۔ اس سلسلہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میرے والد تلوار کھینچ کر وادی ذوالقصہ کی طرف روانہ ہوئے، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور سواری کی نکیل تھام لی اور عرض کیا: اے خلیفہ رسول کہاں جا رہے ہیں ؟ میں وہی کہوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن کہا تھا: [3] اپنی تلوار میان میں ڈال لیجیے اور اپنے بارے میں کوئی بری خبر نہ سنوایئے، واللہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ کے بعد اسلام کا نظام کبھی قائم نہیں ہو سکتا، تو آپ لوٹ آئے۔[4] اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کو گیارہ دستوں میں تقسیم کر دیا اور ہر دستہ پر امیر مقرر کیا،[5] اور ہر امیر کو یہ حکم فرمایا کہ جن بستیوں سے گزر ہو وہاں کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے لیں ۔ وہ دستے یہ تھے: ۱: لشکر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، اوّلاً بنی اسد، پھر بنی تمیم، پھر یمامہ کی طرف۔ ۲: لشکر عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ ، اوّلاً بنو حنیفہ میں مسیلمہ کذاب، پھر عمان و مہرہ، پھر حضرموت، پھر یمن کی طرف۔ ۳: لشکر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ ، اوّلاً یمامہ عکرمہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے، پھر حضرموت کی طرف۔ ۴: لشکر طریفہ بن حاجب رضی اللہ عنہ ، بنو سلیم کی طرف۔ ۵: لشکر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ، قضاعہ کی طرف۔
[1] دراسات فی عہد النبوۃ للشجاع: ۳۱۹۔ [2] دراسات فی عہد النبوۃ للشجاع: ۳۱۹۔ [3] اس سے اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف ہے جو احد کے دن جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبدالرحمن بن ابی بکر کی طرف ان کو قتل کرنے بڑھے تو آپ نے فرمایا: ’’اپنی تلوار بند کرو اور اپنی جگہ لوٹ جاؤ۔‘‘ [4] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۱۹۔ [5] التاریخ الاسلامی: ۹/۴۹۔