کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 104
مؤقف تھا جو انبیاء و رسل نے اپنے دور میں اختیار کیا تھا اور یہی خلافت نبوت ہے جس کا حق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ادا کر دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی تعریف وستائش اور دعا کے مستحق قرار پائے۔[1] اس کے بعد پھر مدینے کے قریب قریب جو مرتدین آباد تھے ان کا خطرہ بڑھ گیا۔ تاہم جن حالات سے مدینہ دو چار تھا ان میں ان سے لڑنا قطعاً مناسب نہ تھا۔ بالآخر مرتدین سے بچانے کے لیے خواتین اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کر دیا اور ان کے خیال کے لیے تیار ہو گئے۔ مدینہ پر حملہ آور ہونے میں مرتدین کی ناکامی: مرتدین کے وفود کے مدینہ سے لوٹنے کے تین دن بعد بعض قبائل اسد، غطفان، عبس، ذبیان اور بکر نے مدینہ پر راتوں رات چڑھائی کی اور کچھ لوگوں کو ’’ذوحسی‘‘ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ ان کے لیے پشت پناہ رہیں ۔ مدینہ کے راستوں پر حفاظتی دستوں کو اس کا احساس ہو گیا، انھوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خبر بھیجی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں حکم بھیجا کہ اپنے مقامات پر ڈٹے رہو۔ وہ اپنی جگہ ڈٹ گئے اور جو لوگ مسجد میں تھے وہ اونٹوں پر سوار ہو کر ان کی طرف آگے بڑھے۔ دشمن کی ہوا اکھڑ گئی۔ مسلمانوں نے اونٹوں پر سوار ہو کر ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ ’’ذو حسی‘‘ تک پہنچے۔ وہاں موجود مددگار مشکیزے لے کر نکلے جس میں ہوا بھر رکھی تھی اور رسّی سے باندھ رکھا تھا۔ پھر اسے اونٹوں کے سامنے پیروں سے لڑھکا دیا۔ ہر مشکیزہ اپنی رسّی سے لڑھک گیا، مسلمانوں کے اونٹ اپنے سواروں کے ساتھ بدک اٹھے۔ اونٹ مشکیزوں سے جس بری طرح بدکتے ہیں ، اتنا اور کسی چیز سے نہیں بدکتے، اونٹ اس قدر بدکے کہ قابو سے باہر ہو گئے، مدینہ آکر دم لیا لیکن کوئی مسلمان نہ سواری سے گرا اور نہ اس کو زخم لگے۔[2] مرتدین کے خلاف حکومت کی طرف سے سرکاری کارروائی ۱۔ اندر سے ناکام بنانے کا طریقہ: خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا چنانچہ آپ نے مدعیان نبوت کے قبائل کو خطوط اور پیغامبر بھیجے تاکہ اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کو اکٹھا کیا جا سکے اور مرتدین سے قتال کے لیے ان کی جماعت تشکیل دی جائے اور اسی منہج کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اختیار کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مرتدین کی تحریک کو روکا جائے اور بقدر امکان اس کو ختم کیا جائے۔ اس کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی شروع کی، ان کا ساتھ چھوڑنے پر اکسایا لوگوں کو ان سے متنفر کیا، اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں سے رابطہ قائم کیا اور انہی میں سے منظم فوج کے لیے افراد تیار کیے۔ اس طرح لشکر اسامہ کی واپسی کے بعد مرتدین کے ساتھ منظم کارروائی کے لیے امت کو تیار کر رہے تھے۔ آپ نے ارتداد کے قائدین اور اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں سے خط کتابت کی تاکہ بعض اہداف کے
[1] المرتضی للندوی: ۷۲۔ [2] تاریخ الطبری: ۴؍۶۵۔