کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 103
ہوئے، اس موقع پر جو کلمات ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلے وہ طویل اور فصیح و بلیغ خطبہ اور بڑی کتاب کے برابر تھے، اسلام کا دقیق فہم، دین پر شدید غیرت اور عہد نبوی میں جس شکل میں دین تھا اس کو اس کی ہیئت پر باقی رکھنے کا عزم ان کے مختصر کلمات سے نمایاں ہوتے ہیں ۔ وہ کلمات یہ تھے: وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا اور دین پورا ہو گیا ہے، میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔ [1] اور ایک روایت میں ہے، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! لوگوں کے ساتھ تالیف قلب اور نرمی کا برتاؤ کیجیے۔ فرمایا: عمر! جاہلیت میں بڑے بہادر اور اسلام میں اتنے بزدل؟ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اور دین پورا ہو گیا ہے، میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔[2]
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ تیز تھی، کیونکہ آپ نے معاملہ کو اس ایمانی بصیرت سے سمجھا جو تمام کے ایمان پر بھاری تھا، وہ یہ کہ زکوٰۃ کو شہادتین سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جس نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو تسلیم کرے جو اس کے مال میں فرض کیا جائے درآں حالانکہ یہ مال اصل میں اللہ ہی کا ہے۔ اور زکوٰۃ کے بغیر صرف لا الٰہ الا اللہ کا قوموں کی زندگی میں کوئی وزن نہیں ، اور جس طرح لا الٰہ الا اللہ کے دفاع میں تلوار اٹھانا مشروع ہے اسی طرح زکوٰۃ کے دفاع میں تلوار اٹھانا مشروع ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ یہی صحیح اسلام ہے اور اس کے برعکس اسلام نہیں ۔[3] اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب کے بعض حصے پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ۔
فرمان الٰہی ہے:
﴿ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ (البقرۃ: ۸۵)
’’کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مؤقف جس میں کوئی نرمی، کوئی سودے بازی اور تنازل نہ تھا، یہ اللہ کی طرف سے ایک الہام شدہ مؤقف تھا۔ اللہ رب العالمین کے احسان کے بعد، اس دین کی سلامتی اور اپنی اصلی حالت میں بقاء کے سلسلہ میں اس مؤقف کا بڑا اہم کردار رہا۔ سب نے اس کا اقرار کیا اور تاریخ نے اس بات کی شہادت دی کہ ظالم کا ارتداد اور اسلام کی ایک ایک کڑی کو توڑنے کی سازش کے مقابلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو مؤقف اختیار کیا یہ وہی
[1] المرتضی للندوی: ۷۰۔
[2] مشکاۃ المصابیح: المناقب ۶۰۳۴۔
[3] حیاۃ ابی بکر: محمود شلبی ۱۲۳۔