کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 101
ہوئے اور جاہلی عادات واعمال میں لگ گئے، کچھ لوگ حیرت وتردد کاشکار ہوئے اور اس انتظار میں لگ گئے کہ کس کو غلبہ ملتا ہے۔ ان تمام شکلوں کی وضاحت سیرت وفقہ کے علماء نے کی ہے۔[1]
دور نبوی کے اخیر میں ارتداد:
ارتداد کا آغاز ۹ ہجری سے ہوا، جسے ’’عام الوفود‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ سال ہے جب جزیرئہ عرب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کر لیا اور اس کے سردار قائدین مختلف علاقوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس مدت میں ارتداد کی تحریک وسیع پیمانے پر ظاہر نہیں ہوئی تھی لیکن ۱۰ ہجری کے اواخر میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو لوگوں کے کانوں میں ارتداد کی آواز پہنچنے لگی اور اس کی چنگاری راکھ کے نیچے بھڑکنے لگی۔ سانپ اپنے سر سوراخ سے نکالنے لگے، جن کے دل مریض تھے، انھیں خروج کی جرأت آئی۔ چنانچہ اسود عنسی یمن میں ، مسیلمہ کذاب یمامہ میں اور طلیحہ اسدی اپنے اپنے علاقہ میں اٹھ کھڑے ہوئے۔[2] اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب اسلام کے لیے عظیم خطرہ بن گئے، یہ اپنے ارتداد کی ڈگر پر ڈٹ گئے اس سے لوٹنے کا امکان نہ رہا اور ان کو افراد ووسائل کی عظیم قوت حاصل ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بارے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب دکھایا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور پھر آپ کے بعد آپ کی امت کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ۔ ایک دن منبر پر خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: لوگو! مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر مجھے بھلا دیا گیا اور میں نے اپنے دونوں بازوؤں میں سونے کے دو کنگن دیکھے، مجھے یہ بات ناگوار گزری، پھر پھونک ماری اور وہ دونوں اڑ گئے، میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے کی۔ یمن والا (اسود عنسی) اور یمامہ والا (مسیلمہ کذاب)۔ [3]
مرتدین کے سلسلہ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مؤقف:
جب ارتداد کی لہر اٹھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور اللہ کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے ہدایت سے نوازا، پس کافی ہو گیا، اور عطا کیا پس بے نیاز کر دیا۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، اس وقت علم کی قدر وقیمت نہ تھی، اسلام اجنبی اور دھتکارا ہوا تھا، اس کی رسّی بوسیدہ ہو چکی تھی، اس کے کپڑے پرانے ہو چکے تھے، اس کے ما ننے والے اس سے بھٹک گئے تھے، اللہ تعالیٰ اہل کتاب سے ناراض ہو گیا تھا، ان کو کوئی خیر ان کے خیر کی وجہ سے نہیں دیتا تھا اور ان سے کوئی شر ان کے شر کی وجہ سے نہیں پھیرتا تھا، انھوں نے اپنی کتاب میں تبدیلی کر ڈالی اور اس میں دوسری چیزیں شامل کر دیں ، اور عرب اپنے آپ کو اللہ رب العزت سے محفوظ سمجھتے رہے، نہ اس کی عبادت کرتے نہ اس سے دعا کرتے، اللہ نے ان کی معیشت تنگ کر دی، اللہ نے
[1] حرکۃ الردۃ، علی العتوم: ۲۰۔
[2] حرکۃ الردۃ: ۶۵۔
[3] البخاری: ۳۶۲۱، مسلم: ۲۲۷۳۔ مسند احمد ، رقم: ۱۱۴۰۷۔