کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 100
کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔ اہل مدینہ نے پورے جوش وخروش اور مسرت کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں داخل ہوئے اور سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام پر سجدۂ شکر ادا کیا۔ اس غزوہ کا خود مسلمانوں اور ان عربوں کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوا، جو مسلمانوں پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے اور اسی طرح ان رومیوں کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوا، جن کا ملک مسلمانوں کے حدود پر پھیلا ہوا تھا۔[1] اس فوج نے اپنی شہرت کے ذریعہ سے وہ کام کر لیا جو اپنی قوت و تعداد کے اعتبار سے نہ کر سکی۔ مرتدین کو جو آگے بڑھے تھے روک دیا، جو اکٹھے ہوئے تھے ان کو منتشر کر دیا اور جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے والے تھے، انھوں نے مصالحت میں اپنی عافیت سمجھی اور اسلحہ اتارنے سے قبل ہی ہیبت نے اپنا اثر دکھا دیا۔[2] (۲)… مرتدین سے جہاد ارتداد کی اصطلاحی تعریف: امام نووی رحمہ اللہ ارتداد کی تعریف میں فرماتے ہیں : ’’نیت یا کفریہ قول یا فعل کے ذریعہ سے اسلام کا انکار کر دینا خواہ مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔ عناد یا اعتقاد کی بنیاد پر۔ لہٰذا جس نے خالق کی یا رسولوں کی نفی کی یا کسی رسول کی تکذیب کی، یا بالاجماع حرام چیز جیسے زنا کو حلال قرار دیا، یا اس کے برعکس بالاجماع حلال کو حرام قرار دیا، یا مجمع علیہ وجوب کی نفی کی، یا اس کے برعکس مجمع علیہ عدم وجوب کو واجب قرار دیا، یا کفر کا عزم کیا یا اس میں تردد کیا، وہ کافر ہو گیا۔‘‘[3] ارتداد کے اسباب واقسام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض قبائل عرب مرتد ہو گئے اور ان کے ارتداد کے مختلف اسباب تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ، دین میں کمزوری، فہم نصوص میں نقص، جاہلیت اور اس کے مفاسد کے ارتکاب کی چاہت، نظام سے بغاوت اور شرعی حکومت کے خلاف خروج، قبائلی عصبیت، حکومت کی طمع، دین کو حصول مال کا ذریعہ بنانا اور مال میں بخیلی، حسد نیز خارجی اثرات[4] جیسے یہود و نصاریٰ اور مجوس کا سازشی کردار وغیرہ۔ ارتداد کی بھی مختلف شکلیں رہی ہیں : کچھ لوگوں نے تو سرے سے اسلام چھوڑ کر وثنیت اور بت پرستی کو اختیار کر لیا، کچھ لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، کچھ لوگوں نے انکار نماز کی دعوت دی، کچھ لوگ اسلام کے معترف رہے، نماز بھی قائم کرتے رہے لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی سے رک گئے، کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے خوش
[1] الصدیق لہیکل باشا: ۱۰۷۔ [2] عبقریۃ الصدیق للعقّاد: ۱۰۹۔ [3] محمد الزہری الغمراوی: شرح علی متن المنہاج ، لشرف الدین النووی ۵۱۹۔ [4] حرکۃ الرّدّۃ، علی العتوم: ۱۱۰۔۱۳۷۔